جب میں تمام اطراف سے منہ موڑ کر’’بائیں‘‘ جانب ہوگیا تو ترقی پسند فکر سے آگاہی ہوئی۔ اور انجمنِ ترقی پسند مصتفین کی ادبی اور طبقاتی جدوجہد کی تاریخی کاوشوں سے روشناس ہوا۔ میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کاش اِن روشن فکر حضرات سے شناسائی ہوا، اور میں ان کی فکر سے مستفید ہوسکوں۔ میری یہ تمنا غالباً 1986میں پوری ہوئی جب کچھ دوستوں کی زبانی معلوم ہوا کہ جعفر خان اچکزئی انجمن ترقی پسند مصنفین بلوچستان کے کنوینربن گئے ہیں۔ میں فوراًجعفر خان سے ملا۔ اور وہ انجمن کی ایک میٹنگ میں شرکت کیلئے مجھے بھی ڈاکٹر امیر الدین کی رہائش گاہ لے گئے جہاں پروفیسر مجتبیٰ حسین مرحوم ، نادر قمبرانی ، عبداللہ جان جمالدینی ، راحت سعید اور ڈاکٹر امیر الدین سے متعارف ہوا جو بعد میں قریبی دوستی میں تبدیل ہوئی۔
ڈاکٹر امیر الدین سے میری آخری ملاقات 13جولائی 2002کی شب ’’مری لیب‘‘ میں ہوئی۔ میں نے اتوار کے پروگرام کے متعلق ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا ’’میں تونہیں آسکونگا کیونکہ میں نے اپنی بیگم کو ایئرپورٹ پہنچانا ہے جو کراچی جارہی ہے ‘‘۔ دوسرے دوستوں کی بھی کچھ ذاتی اور کچھ ادبی مصروفیات تھیں۔ لہذا اتوار کے دن میں شہک کریم کے ہمراہ حسب معمول ماما جمالدینی کے گھر گیا۔ وہاں لگ بھگ ایک بج کر پندرہ منٹ پر ڈاکٹر مری صاحب نے فون پر یہ منحوس خبر سنائی کہ ڈاکٹر امیر الدین ایئرپورٹ سے واپسی پر روڈ ایکسیڈنٹ کر بیٹھے ہیں اور اس وقت تشویشناک حالت میں سنڈیمن سول ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ میں جیئند خان جمالدینی اور شہک کریم فوراً سول ہسپتال کیلئے روانہ ہوئے ۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ ڈاکٹر امیر الدین کی میت نیوروسرجری کے I.C.Uمیں ہے ۔
ڈاکٹر مری صاحب نے احساس دلایا کہ آؤ بہت سارے انتظامات کرنے ہیں۔
پروفیسر برکت علی جن کی حالت انتہائی غیر تھی جس کی وجہ سے ایک پولیس آفیسر کو مجھ سے یہ پوچھنا پڑا کہ یہ صاحب امیر الدین کے کون تھے جو اس قدر بے خود ہوئے جارہے ہیں۔ میں نے ان کو بتایا کہ یہ بھی ہماری طرح قسمت کا مارا اس ’’بے وفا‘‘ کا قریبی دوست ہے۔
چونکہ پوسٹ مارٹم اور تدفین سے متعلق حتمی فیصلہ ڈاکٹر امیر الدین کی بیگم بھابھی ثریا اور ان کے عزیز واقارب نے کرنا تھا۔ ڈاکٹر مری صاحب اُن سے برابر رابطے میں تھے ۔ ساڑھے چار بجے کے قریب کراچی والوں نے فون کر کے پوسٹ مارٹم نہ کرانے کا کہا اور تدفین کیلئے کراچی کا انتخاب کیا۔
دوستوں یہ امیر الدین تب زندہ رہ سکتا ہے جب ان کے دوست جو اس پروگرام میں موجود ہیں کوئٹہ ، کراچی، لاہوراور پشاور یا جہاں بھی موجود ہوں، جن کا تعلق سنگت اکیڈمی سے ہو ارتقاء سے ہو یا کسی اور رسالے، تنظیم سے ہو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کر امیر الدین کے آدرشوں کو پائیہ تکمیل نہیں پہنچائیں۔
دوستو ۔میں امیر الدین کے پس ماندہ گان کا ایک اجمالی تذکرہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ڈاکٹر امیر الدین کی بیوہ بھابھی ثریا ایک زیرک ہوشیار اور متحرک خاتون ہیں۔ ماہر تعلیم ہیں۔ کوئٹہ میں اپنا ایک سکول چلاتی رہیں۔ سیاست میں دلچسپی رکھتی ہیں۔
ایک دفعہ میں اپنے ایک اور پیارے دوست سیف الدین بوہرہ کے ساتھ ان کے دفتر میں محو گفتگو تھا کہ سیف صاحب نے بڑے حسرت بھرے لہجے میں کہا کہ ’’کوئٹہ شہر میں ایک خاتون ثریااللہ دین ہے اور دوسری ثریا امیر الدین ۔کاش ایک ثریا سیف الدین بھی ہوتی‘‘۔ حالانکہ سیف صاحب کی اپنی بیگم بھابھی ممتاز ایک ملنسار، مہمان نواز اور سیف صاحب کا بہت خیال رکھنے والی خاتون تھی۔ اللہ انہیں غریق رحمت کرے ۔
ڈاکٹر امیر الدین کی دوبیٹیاں منزہ اور عائشہ ہیں ۔ دونوں اپنے شوہر اور بچوں کے ہمراہ کراچی اور اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں۔ ایک ہی بیٹا داراشکوہ جو بیوٹمزمیں ملازمت کرتا ہے۔ اس وقت اپنی بیگم کے ساتھ ملیشیاء اعلیٰ تعلیم کیلئے گیا ہوا ہے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے