چوتھا دن ۔۔۔ قندیل بدر
ابھی کچھ کام باقی ہے ابھی سورج پہ پہلا پاؤں رکھنا ہے فلک کا ریشمی نیلا دوپٹہ چاک کرنا ہے خدا سے بات کرنی ہے اک ایسی رات کرنی ہے…
ابھی کچھ کام باقی ہے ابھی سورج پہ پہلا پاؤں رکھنا ہے فلک کا ریشمی نیلا دوپٹہ چاک کرنا ہے خدا سے بات کرنی ہے اک ایسی رات کرنی ہے…
اک مزدور کی ہے یہ کہانی جتنی نئی ہے اْتنی پْرانی اک مزدور کی ہے کہانی جو مِل میں رات کی ڈیوٹی کرتا تھا اور گھر آکر دن بھر سوتا…
اک کرب ہے میرے سینے میں، سہتا ہی رہوں دل جلتا ہے کہہ دوں تو شکایت ہوتی ہے، اور لب سی لوں دل جلتا ہے ہر سو ہے تماشہ مقتل…
یہ ازَل زادیاں تو نہیں گردشیں کوئی آسیب ہیں جو سِحِر پھونکے ہم پہ ہمیں خِطّہِ گْم شْدہ کی طرف مٹ گئے راستوں پہ لیے جاتی ہیں اور رْکتی نہیں…
من پْریں آسمانے آں؟ من شھر کبرے آکتگ او زر کْدام بستگیں چراگے آ وتارا پْلے ئے تہا چو وشبوئے آَ شنگ کتگ داں رھگوزی مسافریں گلابے بئیت ودم بِکنت…
اداس کمرے کے کونے کونے میں جیسے غصہ پڑا ھوا ہے یہ کپ میں چائے نہیں ہے پرسوں سے ایک لمحہ پڑاہوا ہے ھماری بستی کے سارے باسی نئے سفرپر…
قربان کلاچی بدست :رزاق شاہد "او وی انسان ہے سوچ دے عرش تے ماہ و مریخ دا ہاں لتاڑی بیٹھے، اے وی انسان ہے بھوئیں تے چنبے پکا تے مقدر…
سوچتی ہوں وطن سے اب کوئی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نہیں آتا ہر صبح اپنے ساتھ دکھ بھری خبروں اور تصویروں کی پوٹلیاں لے آتی ہے یہ صرف مجھے ہی…
سوچوں کے گڈ مڈ ہوتے سورج کو تم تھکن کا لبادہ دے رہے ہو یہاں فلسفیوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں زندگی اپنی بے حسی کی آخری ہچکی لینے لگی ہے…
کون مسافربرسوں سے سنسان پڑی خاموش گلی سے گزرا آنکھیں ملتی رات کی اوک میں شام گلابی گاگر خالی کرتے کرتے چونک اٹھی کب ریشم سے ریشم الجھا اور بجتی…
پنکھ کھولے گی تو خوشبوں کی زباں بولے گی ہونٹ کھولے گی تو حیرانئی جاں بولے گی آ نکھ تو کھول ہوا اپنی زباں بولے گی وہ ترے عکس میں…
خموش ہوں کئی دنوں سے اور شگاف پھیلتا ہی جا رہا ہے کھا رہا ہے رات دن وجود کے ثبوت میں یہ دل دھڑک دھڑک کے تھک گیا ہے پھر…