یہ اپنی مدح و ثنا
شان و شو کتِ اجداد
ورق ورق جو
سر افرازیوں کے قصے ہیں
یہ اس قلم سے لکھے ہیں
مرے مورخ نے
حضورِ شاہ جو
اک عمر دست بستہ رہا
برائے پرورش فکر و بودباشِ حروف
جو والیاںِ ریاست کے منہ کو
تکتا رہا
یہ تا ج و تخت و عمارات و با غ اور محل
بیت غرور سے
یہ جن کا ذکر کرتا ہے
ان ہی کے فرش کے نیچے ہیں
ایسے تہہ خا نے
جہاں دھرے ہیں
وہ فر مان شا ہزادوں کے
جو اپنے پیاروں کے ایک ایک
قطرہخو ں سے
برا ئے تخت
اطا عت کشید کرتے تھے
جو پیل پیل کو کو لہومیں
زندہ جسموں کو
خمار و نشہ عشرت کشید کرتے تھے
قصیدے تخت نشینوں کے
اس قلم نے لکھے
دھرے تھے تخت کے نیچے جو سر
نہیں دیکھے
دہکتی تیلیا ں
آ نکھوں میں کتنی
پھیری گئیں
یہ غار چہروں کے
اس نے مگر نہیں دیکھے
ہم اس قلم کی وراثت
اٹھا ئے پھر تے ہیں
یہ خفیہ خا نے
یہ فرمان
کتنی نسلوں سے
ہم اپنے سینوں میں
اب تک چھپا ئے پھر تے ہیں
اور اپنے وحشی وخونخوار جنگلی جذبوں پر(گویا) ۔
غلا ف خا نہ کعبہ چڑھا ئے پھر تے ہیں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے