زبا ن کسی قوم کی با ئبل ہو تی ہے۔ یہ اس کا نمک ، ذائقہ، اوراس کی شا ن شنا خت ہوتی ہے، اس کی سب سے مر کزی موٹی جڑ ہوتی ہے۔ زبا ن کسی قوم کے دل کا ساحل ہو تی ہے۔بلوچی زبان بلوچ قوم کی پگڑی کی خوبصورت گولائی ہے۔
مگرآج جسم و سر کے ساتھ یہ پگڑی بھی اچھی حالت میں نہیں ہے۔ البتہ بلوچ سماج جس سکراتی صورت میں گھراہوا ہے وہ نہ تو وقتی ہے نہ حادثاتی ہے، اور نہ ہی عارضی ہے۔ ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ پندرھویں صدی سے لے کر آج تک ، بلوچ سماج کو مسلسل پند رہ ماہ بھی چین کے نصیب نہیں ہوئے۔ فطرت کے خلاف تو ساری انسانیت کی طرح ہم بھی جدوجہد کر رہے ہیں۔ مگر ہمارا سماج تو اضافی جھمیلوں کا شکار بھی ہے۔ بلوچ سمندر،اس کی معدنی دولت اور جغرافیائی لوکیشن دور نزدیک کے چیلوں کرگسوں کو کھینچ کھینچ کر ہم پہ حملہ کراتی ہیں۔ اور جب یہ بیرونی درندگی نئے حملے کے لیے کچھ دیرسستانے لگتی ہے تو پھر بر ادرکشی کا دیو جاگ پڑتا ہے۔ یو ں ہماراپورا سماج ہمہ وقت بھو نچال زدگی میں رہتا ہے۔اس بھونچا ل کا سب سے بڑا نشانہ ہماری زبا ن اور ثقافت ہوتے ہیں۔ زبان وثقافت جسے اکیسویں صد ی میں لائبر یر یا ں چا ہییں ، کلاس رومز ، لیبا رٹریا ں چا ہییں ، سمینا ررومز،کھیل کے میدان، آرٹس کونسلیں اور اکیڈ میا ں چاہییں۔
اس بدنصیب پس منظر میں بلوچی زبان کے اندر تخلیق و تصنیف کی سر گر میاں بہت کم ہیں۔ لہٰذاہم ابھی بھی زیا دہ تر اور ل لینگوئیج ہی ہیں ۔ ہمارا تحریری ادب نہ ہونے کے برابر ہے۔مثلاًبلوچی ناول سے حا لیہ دہائی کو نکال دیا جائے تو وسیع سطح پرسمجھو اس میں کام ہی نہیں ہوا۔ دنیا کیا لکھ رہی ہے، ناول کے موضوعات کیا ہیں؟ کیا کیا تکنیکیں استعمال ہورہی ہیں ؟ ہمیں معلوم ہی نہیں۔
اسی طرح کوئی بڑی افسانہ نگاری ، کوئی بڑی تنقید نگاری بھی موجود نہیں ہے۔ ڈرامہ میں سرکاری ریڈیوٹی وی نے تو کچھ کیا تھا مگر اب ماسوائے وش چینل کے ،نقدی روکڑے والے باقی پرائیوٹ چینلوں کی یلغار صر ف بلو چی زبا ن کو نظر اندازی کی مو ت ما ر رہی ہے۔
لے دے کے شاعر ی بچتی ہے جس میں کلاسیک سے لے کر آج تک تسلسل سے اور معیاری کا م ہورہا ہے۔بلوچی زبان میں فلسفہ پر توسمجھو کچھ لکھا ہی نہیں گیا،فلسفہ کے بنیادی سوال سمیت سنجیدہ افکار پہ بحث بہت کم ہوئی۔ ۔اسی طرح مارکیٹ کی زبان نہ ہونے کے باعث ایران کا بلوچ کندھ کوٹ کی بلوچی نہیں سمجھتا اور دریائے نہنگ کا بلوچ دریائے بیجی کی بولی نہیں سمجھتا۔
المختصر، تخلیق کے لیے ضروری جدید لوازمات ومحرکات موجود نہیں ہیں۔بہت سے لو گو ں کو یہ غلط فہمی ہو تی ہے کہ بلوچی بولنے اور لکھنے والے ہی بلوچی کے محافظ ہیں۔ایسا نہیں ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ خود بلوچی زبان اپنے بولنے لکھنے والوں کی محافظ ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ مگر ہماری یہ محافظ تو، دورِحاضرکے تمام اسلحہ سے محروم ہے۔
تو پھر کیا کیا جائے؟۔ دنیا کی قدیم تر ین تہذیب کو قر بان کر دیا جائے؟ ۔اپنے وسیع ذخیر ہ الفاظ سے دستبردارہوا جائے؟ ۔صد یوں کے مشاہدات وتجربات سے سینچے گئے محاوروں اور ضر ب لامثال سے لا دعوی ہوا جائے؟ ۔مظبوط کلچر ل بنیادوں پہ کھڑی ایک زبان کا اس لئے بلیدان دیاجائے کہ اُسے امروزکا انفراسٹر کچرمیسر نہیں؟۔
آئیے ذرادیکھیں کہ ہمارے اجداد نے اپنے زمانے میں اسے کس طرح بچایا تھا ؟۔ جواب یہ ہے کہ انہو ں نے ہماری زبا ن کو اُنہی زبانوں کی گود میں پالا پو سا جو ہماری زبان پر حملہ آور تھیں۔ جی ہاں۔بلوچی نے بہت دفعہ فرعونوں کی گود میں پرورش پائی ۔
مہر گڑ ھ تہذیب کے اولین لکھاری کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے مگر حا لیہ تا ریخ سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ بلوچی کی تحریر خواہ تختی پر تھی ، یا زمین پر ، یا پہلے سے لکھی ہو ئی کسی کتا ب کے حا شیے پر ، وہ عربی یا فارسی جیسے ایک رسم لحظ میں تھی ۔ یعنی بے شمار زبانوں کی طرح ہماری زبا ن کا حا لیہ ابجد ورسم الحظ دوسر ی زبانو ں کے میل ملا پ سے آیا ۔ دوسری زبان جاننے اور اُ س سے استفادہ کر نے سے زبانوں میں موجود علم کے باہمی تبادلوں میں زبردست ترقی ہوئی۔پڑوسیوں نے ایک دوسرے کی تحقیقات اور در یا فتوں سے تر جمہ کے ذریعے استفادہ کیا ، اپنی تخلیقی میر اث دوسروں کو مستعا ر دی اور اُن کی سائنس اور ٹکنالوجی کو ترقی دی۔ ہر علاقے کے قومی ادب کو فروغ ملا ۔ علم کی اشاعت ہوئی۔ لغات بنیں، مائتھالو جی مذہب اور فلسفہ مروج و مقبول ہوا۔ المختصر سارے ، سیا سی ، ثقافتی ،معاشی اور تاریخی عمل میں ہمہ جہت تیزرفتاری ہوئی۔
ذرا غور کریں اگر تر جمہ نہ ہوتا تو ٹکنالوجی کی منتقلی کا موجودہ جدید مظہر موجودہی نہ ہوتا ۔ تاریخ میں جب بھی دیکھیے تودنیا میں موجود فکری اختلاط اور سماجی معا شی سیاسی انقلابات میں متر جمین نے ایک اہم کرداراداکیا ۔ کوانٹم تھیوری کا کیا بنتا ،بگ بینک اور بلیک ہولز کے بارے میں معلومات کہا ں سے میسر ہوتیں۔جنیٹکس صحرا ؤ ں سمندروں میں پیا س سے نہ مر جاتا ؟۔ ہم ایک فقرے میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ ساری سائنس تجربہ کے بعد ترجمہ ہی کے ذریعے آگے بڑھی ہے۔
ہم صرف سائنس کی با ت نہیں کر رہے۔ ہم ادب وزبان و تاریخ و ثقا فت کی بات بھی کر رہے ہیں ۔ مترجمین کی کاوشوں نے عیسوی دور سے بھی پہلے چین اور روم کے درمیا ن ٹکنالوجی کی منتقلی کو ممکن بنایا۔ سو میر یائی رزمیہ ’’گل گا میش ‘‘ً ہم تک تر جموں سے پہنچا۔قدیم یونانی اور شامی مسودات کا عربی ترجمہ ہوا۔ پھر یہ تراجم لاطینی زبان میں ترجمہ ہوئے۔ ہندوستانی علم تبت ، چین ، جاپان،ہندچین اور انڈونیشا تک گیا۔ الغر ض تراجم کے ذریعے تمام انسان اپنی علمی میراث ایک دوسرے میں بانٹ کر امیر وغنی ہوگئے۔اَفلاطون اورار سطو کی تعلیمات کو تر اجم نے عا لمگیر بنا یا ۔تر جمہ کے بغیر ہومر کو کون جان پاتا ؟۔ رینے سا ں تو تھا ہی تر جمو ں کا عہد۔ تر جمو ں کے بغیر مزدک ، شیکسپیراور ٹالسٹائی کہاں ہوتے؟ ۔تر جمہ ابلاغ کی سب سے اولین کنجی تھا ، اور ہمیشہ رہے گا ۔ایک عوام دوسرے عوام کو ، ایک قوم دوسری قوم کو ترجمہ کے وسیلے سے اپنے ذہن منکشف کرتے ہیں۔
مترجم علم کے ، انسانیت کے، محبت کے اور آفاقیت کے عظیم مبلغ ہوتے ہیں۔ ا’ن کے بغیر تو بر اعظم ایک دوسر ے کو سمجھ نہ پاتے ، انسا ن ایک نوع نہ بن پاتا اور علم اپنا موجودہ ہمہ گیر درجہ حاصل نہ کر پاتا۔ ترجمہ انسپائریشن کا ایک ماخذ و منبع ہے۔بلوچی میں تر جمہ وسیع پیمانے پر شروع ہوتو یہ بلوچ کے ردعمل کو بر انگیختہ کر ے گا اور اسے مزید کا م کے لئے ابھا رے گا ۔ یہ بلو چ کی نشا طِ ثانیہ کے لئے ایک مقا م آغاز کی حیثیت رکھتا ہے۔ انسان ایک ٹکنالو جیکل جاندار ہے ۔ سائنس اس کی سب سے بڑی مصروفیت ہے۔ سائنس کا کلچر اور مزاج اجتماعیت والے ہیں، تعاونی ہیں،اور ابلاغی ہیں۔ ترجمہ ہر سائنسی سماجی تحقیق اور اس کے نتائج کو مقامیاتا ہے۔ جو بصورتِ دیگر ہمیشہ خارجی ہی رہتے۔فلسفہ ، سیا ست اور سا ئنسی تحقیقات کے نتا ئج کو خارجی رکھنا انسانیت کے خلاف جر م ہوتا ہے۔ یا د رکھیے سائنس قو می نہیں ہو تی ، ادب قومی نہیں ہو تا ، اب تو ٹکنا لوجی بھی قو می نہیں رہی۔یہ سا رے انسا نو ں کی میراث ہیں۔ بلو چی تھیر یم میرا ہے،مگر یہ عالمی بھی ہے، بارکھا ن کی وھیل مچھلی ، مہر گڑ ھ اور اس کے آثا ر، بلو چ کے ہیں مگر اُن سے اخد شدہ نتا ئج اور سا ئنسی علم ہم تک ہی محدود نہیں ۔
تر جمہ بلا شبہ ایک مشکل اوردقت طلب آرٹ ہے۔ انتہائی سنجیدہ اور تخلیقی کا م ہے۔ تر جمہ کے لئے محض دولسا نی ہی بننانہیں پڑتا ، بلکہ آپ کو دو کلچری بھی ہو نا ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ زبا ن محض الفا ظ کا مجموعہ نہیں ہو تی ، نہ ہی یہ محض گر امر و نحو کے اصو لو ں کا ایک ڈھیر ہوتی ہے ۔ زبان تو ثقا فتی حو الو ں اور تعبیر وں کو وسیع پیما نے پر مر بوط کر نے والا نظا م ہے ۔ مترجم کو سمجھنا ہو گا کہ وہ دو تہذیبو ں کے بیچ ایک پل ہے۔ اور پھرمترجم کے لیے،موضوع سے واقف بھی ہونا ہوتا ہے۔
مگر خیال رہے کہ ترجمہ محض ایک غیر فعال اور نقل ساز پُل نہیں ہے ۔ وہ تو آرٹسٹ ہوتا ہے۔ ناو ل ،افسانہ، ڈرامہ اور شاعر ی میں تر اجم بذات خود ادب میں شما ر ہوتے ہیں ۔ عمر خیام کو فٹزجیرالڈسے کون جداکر سکتاہے۔
ہاں اگر آپ کسی مذہبی تحر یر کا تر جمہ کر رہے ہیں ، یا ریاضی اور فلسفے کا تو پھر آپ کو سیدھا اور سا دہ ترجمہ کرنا ہوگا ، مخلص اور وفادار متر جم بننا ہوگا۔ مگر میںیہاں بھی خبر دار کرتا چلو ں کہ انسان کے ترجمے اور گُوگل کے تر جمے میں فر ق بہر حا ل ہو نا چاہیے۔ مگر اگر کسی نا ول کا لفظ بہ لفظ تر جمہ کریں گے تو اُس کی روانی کو بہت حر ج آ ئے گا مگر یہ بھی خیال رہے کہ تصور کے ترجمہ ترجمہ میں کہیں نا ول کا آپ گم نہ ہو جائے۔
ہمیں مشکل و متر وک بلو چی یا تو استعما ل ہی نہیں کرنا چا ہیے،یا پھر اس طر ح کرنا چا ہیے کہ قا ری کی تفہیم میں کو ئی مشکل پیش نہ آئے۔
موجودہ گلوبلائزیشن اور اس کی ثقافتی اور لسانی بالاد ستی اور بڑھتے ہوئے اثر کے سامنے بلوچی تو کیا کسی بھی زبان کی مزاحمت کی موجودہ قوت نا کافی ہے۔ہماری زبا ن کو بقا کا ، جی ہا ں بقا کا معاملہ درپیش ہے۔ ہم اس دعوی کو رد کرتے ہیں کہ زبان کو محض ادیب و دانشور بناتے ہیں ۔ درست بات یہ ہے کہ زبان عوام الناس کے پسینے، چھا لوں اور جشن و الم کا صوتی اظہا ر ہوتی ہے ۔ وہی اُسے تخلیق کرتے ہیں، اس میں مٹھاس کٹھاس ڈالتے ہیں ۔ اُسے ہمہ وقت صا بن شمپو کیے رکھتے ہیں ۔ ادیب و دانشور تو ایک نظام کے ساتھ، ایک پراسیس کے ساتھ اورٹکنالوجی کا استعما ل کر کے عوامی زبان کی ترقی کرتے ہیں ۔تقاضے اتنے بڑے ہیں کہ جدید زمانے کی ضروریات کی مطابقت کے لیے بلو چ ادیبو ں دانشوروں کو بھرپور حرکت میں آناہوگا ۔ بلوچی زبا ن کے اندر آج کے عہد کے معاملات اور نظریات و موضوعات کو جگہ دلا نے کے لئے تیزاقدامات کی ضرورت ہے۔تجا رت ، ٹکنا لو جی اور ڈپلو میسی میں لنگو آفر انکایعنی انگلش کی اہمیت اور مقا م مسلم ہے۔لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم بحیث القوم انگلش نہیں جانتے ۔ ہم سامراجی تعلیمی نظام کی بدولت ،نقل، سفارش اور جعل سازی سے ڈگریاں لینے تک محدود کردیے گیے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ دو تین آدمی بھی نہیں ہیں جو بلو چی سے انگلش میں ترجمہ کر سکتے ہوں۔ اسی طرح انگلش نہ آنے کی وجہ سے ہم اس بین الاقو امی زبا ن کے بجا ئے اردو سے بلو چی تر جمہ میں کرتے ہیں۔اور اس میں مصیبت یہ ہے کہ اردو کے اپنے تراجم بہت ناقص، نامکمل اور آلودہ ہوتے ہیں۔
مگر ان سب حقائق کے باوجود بلو چی کو عد م تو جہی میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا ۔ عالمی تجا رت و سفا رت کے میدان میں بلوچی کو اپنے پیروں پر کھڑاہونا ہوگا۔ سالم ، صحت مند اور سیدھا!!۔
تراجم کسی دوسرے سما ج یا عہد کے لو گو ں کے احسا سا ت اور خیا لا ت کو دریا فت کر نے کی ہما ری صلاحیت بڑ ھا تے ہیں ۔ یہ ہما رے شعور کو بے شما ر طر یقو ں سے وسیع اور گہرا کرتے ہیں ۔ تراجم بتائیں گے کہ بلوچ جوکچھ خود لکھ رہا ہے اس کا عالمی ادب میں کیا مقام ہے۔تراجم سے ہمارے سنجیدہ قارئین کو دنیا کی مختلف زبانو ں کے فن پاروں کو پڑھنے اور سمجھنے کا موقع ملتا ہے ۔ ہم عالمی فنی ،فکری اور ادبی ذائقوں سے اپنی شیریں، قنداورنبات جیسی بلوچی زبان کو آشنا کر سکیں گے۔
تر اجم ہمیں انسا نی عظیم و مشتر کہ ور ثے میں غوطے لگا نے کا موقع دیتے ہیں ۔ شکر ہے کہ ہما ری زبا ن کئی لہجوں، اورالفاظ کی بدولت دنیا کی امیر زبانوں میں سے ایک ہے، لہذا اس زبان میں ترجمے کرنا بہت آسان ہے ۔ترجمے بلوچی زبان کے معدے کو دوسر ے انسا نو ں کے تجر بو ں کی گر م گر م تندوی روٹیا ں عطا کرتے ہیں ۔ ایکسچینج ٹرانسفیوژن محض علاج نہیں ہے، یہ ہماری نئی دنیا کی فزیالوجی کا حصہ بن چکا ہے۔ زبان کو نئے نئے عناصر سے مالا مال ہوتے رہنا چاہیے۔ زبان میں وسعت کو کبھی بریک نہیں لگتی ۔تراجم بلوچی کو سائنس، آرٹ اور کلچر کی ترجمانی کے لیے قوی بناتے ہیں ۔۔۔ اسے لپکنے جھپٹنے کے لیے لچکدار بناتے ہیں۔ تر جمے محض فوٹو سٹیٹ نہیں ہوتے ۔ یہ آپ کی زبا ن کو ورزش کر اتے ہیں ، اُسے تنو مند بنا ئے ہیں۔اُ س کی زند گی کو طو یل بنا تے ہیں۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ انگریزی زبان تراجم ہی کی بدولت تو پہلوان ہے، روسی،عربی، فرانسیسی زبانیں تراجم کے ٹانِکوں سے عالمی زبانیں بن چکی ہیں۔تراجم کے ذریعے ہم خیا لا ت میں توانا ئی پا تے ہیں، الفا ظ میں غنی ہو جا تے ہیں اور محا وروں استعا روں میں وسعت حا صل کرتے ہیں ۔کو ن بلو چ ہے جسے بلو چی کے خزانے میں اضافہ اوروسعت اچھی نہ لگتی ہو ۔ ہم حکومت کو تو نہیں منواسکتے کہ وہ پانچ سال تک سرکاری،قومی وسائل کا ایک بہت بڑا حصہ صرف ترجمہ کے کام پر جھونک دے۔ مگر ہم خود سے فرمائش کرسکتے ہیں کہ ہم اپنے دل کے سا حل کواجازت دیں کہ وہ اپنے دلِ مضطر کی طوفانی لہروں کے ساتھ ساتھ دوسری ثقا فتوں کو بھی آغوش میں لے لے۔ بلوچی کو بہت دلکش و غنی اور متنوع ور نگین بنانے کے لیے تر جمے کیجیے ، ترجمے کرائیے اور ترجمے پڑھوائیے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے