گلِ نایاب کی مہکار لیے پھرتا ہوں
یہ جو میں خواب کے انبار لیے پھرتا ہوں

شورشِ دل کو لیے دشت میں جا ٹکتا ہوں
دشت کو پھر سرِ بازار لیے پھرتا ہوں

کس کی آواز پہ کِھلتے چلے جاتے ہیں گلاب
کس چہک کے لیے اشعار لیے پھرتا ہوں

معجزے جس کی ہتھیلی پہ دھرے رہتے ہیں
اْس کی خواہش پہ میں آزار لیے پھرتا ہوں

ایک پل جو کسی سائے میں ٹہرنے ہی نہ دے
دہر کی نار میں وہ بار لیے پھرتا ہوں

بے سْتوں اک نیا ہر بار نظر پڑتا ہے
اس لیے نت نئے اوزار لیے پھرتا ہوں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے