ہم نے آل انڈیا بلوچ کانفرنس پارٹی کے قیام کے ارادے سے لے کر 1932میں اُس کے کامیاب اولین سالانہ جلسے کے انعقاد تک ساری دستیاب تفصیلات دی ہیں ۔ہم نے اس پارٹی کے عہدیداروں اور مرکزی کمیٹی کا انتخاب ، اِس کے منشور آئین اور دیگر دستاویزات کی تیاری کے لیے کمیٹیوں کے چناؤ کے بارے میں سارا میسر مواد پیش کردیا۔
داؤ پیچ اور حکمت عملی کی باتیں اپنی جگہ مگر یہ بات قیاس میں بھی نہیں لانی چاہیے کہ یہ چار روزہ اجتماع غیر سیاسی نوعیت کا تھا۔ کسی اور کو معلوم تھا یا نہیں مگر دونوں اطراف یعنی بلوچ کانفرنس اور انگریز سرکار دونوں کو پتہ تھا کہ ہندوسندھ سے لے کر چمن و زاہدان تک کے عوامی نمائندوں کا چھیا نوے گھنٹوں تک اکٹھا رہ کر ایک دوسرے کو سنناکہاں غیر سیاسی ہوگا۔جس اجتماع میں ایک سیاسی پارٹی کی تشکیل ہو، اُس کے اغراض و مقاصد مرتب کیے جائیں اور اس کی قیادت کے لیے کمیٹیاں اور کابینہ تشکیل دی جائے وہ کہاں غیر سیاسی ہوگا۔
اگلے صفحات میں آپ دونوں اطراف کی طرف سے اجتماع کے فوراً بعد کے عرصے کا ردِ عمل دیکھیں گے۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ دونوں نے آل انڈیا بلوچ کانفرنس کے اِس تاریخی اکٹھ کی ٹھیک ٹھیک تشخیص کر دی تھی۔ (ہم جب دونوں اطراف کی بات کرتے ہیں تو ہم کلات حکومت اور سرداروں کو انگریزی حکومت کے ساتھ منسلک کر کے بات کر رہے ہیں)۔
چنانچہ ایک ماہ بعد ہی کانفرنس کے بانیوں اور منتظمین نے اس کے سیاسی نکات کو بنیاد بنا کر اپنی سرگرمیاں دکھائیں۔اس سلسلے میں بلوچستان آرکائیوز میں یوسف عزیز مگسی کے بطور نائب صدر آل انڈیا بلوچ کانفرنس ایک مضمون خصوصی اہمیت کاحامل ہے جو 31جنوری 1933میں ایسٹرن ٹائمز میں چھپا تھا۔ عنوان تھا: ریفار مزاِن بلوچستان ۔( ترجمے کی خامیاں میری ہیں۔ مصنف) ۔
۔’’سرکاری ریشہ دوانی اور بیوروکریٹک بالادستی کے اِن دنوں میں، بلوچستان اینڈ آل انڈیا بلوچ کانفرنس کی کمال کامیابی نہ صرف میرے اور مجھ جیسے طرزِ تفکر رکھنے والے لوگوں کے لیے خوشی اور اطمینان کی باتہے بلکہ انڈیا کے دوسرے حصوں میں رہنے والے ہمدرد بھائیوں کے لیے بھی، جو شروع سے بلوچ معاملات میں گہری دلچسپی لیتے رہے ہیں ۔
۔’’میں پریس کے اُس حصے سے اپنی ممنونیت اور احسان مندی کا اظہار نہ کروں تو اپنے فرض میں ناکام رہوں گاجس نے رضاکار انہ طور پر بلوچستان کے کاز کی مدد کی ہے۔ میں بھرپور زور اور اخلاص سے کہتا ہوں کہ میںیہ کہنے کا اختیار رکھتا ہوں کہ بلوچستان کے عوام اُن کی خدمات اور مدد کو بہت سراہتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ وہ ترقی کرنے کے اُن کے کاز کی مدد کرنے اور مشتہر کرنے میں آخر تک ساتھ دیں گے۔
۔’’بلوچستان اور آل انڈیا بلوچ کانفرنس نے پورے اتفاق سے بلوچستان کے اندر ریگو لر اور مساوی آئینی اصلاحات نافذ کر نے کی اہم قرار داد منظور کی ۔ قرار دادوں کی کاپیاں فوری طور پر وزیراعظم ، سیکریٹری آف سٹیٹ فار انڈیا ، سرآغا خان اورRTCکے مسلمان مندوبین کو بذریعہ ٹیلیگرام بھیج دی گئی تھیں۔ اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ آیا بلوچستان ایک اصلاح یافتہ اور خود مختار صوبے کے بطور ضروری اور بنیادی مالیاتی وسائل رکھتا ہے؟ ۔ میں بھر پور رائے رکھتا ہوں کہ اس طرح کا اعتراض مزید ترقی اور فطری بڑھو تری کے امکانات اور یقینی امروں بھرے ایک صوبے تو کیا کسی بھی قصبے ، ملک اور حتی کہ ایک دیہات کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہوسکتا اور نہ ہی اسے ہونا چاہیے۔۔۔ ذریعہ انجام نہیں ہے بلکہ انجام اصل مقصد ہے ۔ اِس نقطے پر میں اسی بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ بلوچستان کے موجودہ اخراجات واقعی حد سے بڑھ کرہیں ۔ مجھے مکمل یقین ہے کہ بلوچستان حال کی بہ نسبت اپنے مستقبل کی باوقار پوزیشن کو ایک زیادہ میانہ رو،اور مناسب اخراجات سے برقرار رکھے گا۔ حال کے اخراجات کے پیمانے کو بلوچستان کی آئینی ترقی کے لیے ایک رکاوٹ سمجھنا بہت نامناسب ہے ۔ اسی کے ساتھ ساتھ عوام اور حکومت کے سامنے ہمارے پاس بہت سی تجاویز ہیں جنہیں بہت جلد سامنے لایا جائے گا۔
۔’’دوسرا اعترض جو کچھ حلقوں میں بے چینی پیدا کر رہی ہے ، یہ ہے : برٹش بلوچستان کی آبادی کم ہے اور بلوچستان کے بقیہ حصے ریاستوں اور قبائلی سربراہوں میں منقسم ہیں، لہذا اِن بظاہر آزادریاستوں میں کسی طرح کا ریگو لر حکومتی نظام نافذ کرنا بہت مشکل ہوگا۔ پہلااعتراض فریبی بہانوں کے ذریعے بنیادی حقوق کے ایک فنکارانہ انکار سے زیادہ کچھ نہیں ۔ ہر ذی شعور شخص اس اعتراض کو فوری طور پر مسترد کردے گااس لیے کہ جھوٹے بہانوں اور کمزوربنیادوں پر ساری قوم کو اُس کے پیدائشی حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ دوسرے اعتراض میں بھی آفشل بلاک کے اُس بار باردھرائے جانے والے بہانے کے ساتھ اُسی طرح کی ایک نمایاں یکسانیت ہے کہ جب تک ہندوستانی ریاستیں ہندوستان کی آزادی کے مطالبے کے لیے ہم آواز نہیں ہوتیں، کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ سر محمد اقبال نے حال ہی میں بلوچستان کے لیے اصلاحات کے معاملے پر بحث کرتے ہوئے رائے دی کہ’’ برٹش بلوچستان ، قلات اور لسبیلہ ریاستوں کو ایک کیا جانا چاہیے، یا انہیں ایک فیڈریشن میں بدلنا چاہیے، اور اس فیڈریشن کو آل انڈیا فیڈریشن کا ایک فیڈرل یونین بننا چاہیے ‘‘۔ اس تجویز نے اچھی خاصی توجہ حاصل کی اور میرے خیال میں یہ اب تک اِس معاملے میں پیش کی گئی سب سے بہترین تجویز ہے ۔ میرا خیال ہے کہ اگر قبائلی سربراہوں کے مفاد کی حیثیت کو تحفظ دیاجائے اور اُن کی داخلی آزادی محفوظ ہو تو انہیں بلوچ فیڈریشن میں شامل ہونے میں کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ میں کلات اور لسبیلہ کے حکمرانوں سے پوچھنے کی رعایت لیتا ہوں: کیا وہ براہِ راست آل انڈیافیڈریشن میں شامل ہونے کے بجائے بلوچ فیڈریشن میں شمولیت کو ترجیح نہ دیں گے؟۔
’’سیاست ‘‘لاہو رکے سید حبیب نے ابھی حال ہی میں جیکب آباد کا دورہ کیا، اور گفتگو کے دوران کہا:’’برٹش بلوچستان کے لیے اصلاحات کا مطالبہ کرنا اس علاقے کو اوریجنل حقوق سے محروم کرنے کے مترادف ہے، جس کی نیک نیتی شک شبہ سے بالاہے اس لیے کہ کوئٹہ، چاغی، بولان، نصیر آباداصل میں ریاست کلات سے تعلق رکھتے ہیں اور برطانوی حکومت اصل حکمران نہیں ہے ، بلکہ وہ اس علاقے کے معاملات کو چلانے کے لیے محض ایک لیز ہولڈر ہے‘‘۔ اس لیے اصلاحات کا مطالبہ کرنے کا مطلب یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ علاقہ برطانوی حکومت کا ہے۔
’’سید صاحب نے زور دے کر تجویزدی کہ ’’ بلوچ کانفرنس کلات سٹیٹ کی طرف سے علاقے کو دوبارہ قبضہ کرنے کی بات کرے اور پھر کلات سٹیٹ سے آئینی اصلاحات دینے کا مطالبہ کرے ‘‘۔ یہ تجویز واقعی اہم ہے مگر وقت کی کمی کی وجہ سے کانفرنس میں اس پر غور نہ کیا گیا۔ میرا خیال ہے کہ اس تصور کو کلات کے حکام کی بھی حمایت حاصل ہے ۔ مگر مجھے اندیشہ ہے کہ مطالبہ اصلاحات کو ملتوی کرے گا جو کہ قریب ترین مقصد ہیں اور جب تک تجویز کے پیچھے کوئی قاعدہ قانون نہیں ، سید حبیب کا مطالبہ ایک طرح سے ناقابلِ عمل اور تصوراتی رہے گا۔ لہذا، میں بلوچوں سے اپیل کروں گا کہ وہ برٹش بلوچستان اور بلوچ ریاست کے لیے ایک بلوچ فیڈریشن اور بلوچستان کے لیے مساوی اصلاحات پر اپنی سرگرمیاں مرکوز رکھیں۔
’’آخر میں میں برطانوی حکومت سے اپیل کروں گا کہ وہ اُن آئینی اصلاحات میں تاخیر نہ کرے جن پر کہ آل انڈیا بلوچ کانفرنس متفق ہوئی۔ اگر برطانوی حکومت بلوچوں پہ شک اور غلط فہمی کومٹانے کی خواہش مند ہے ، تو یہی وہ وقت ہے کہ آگے بڑھا جائے۔میں لوکل گورنمنٹ سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ آل انڈیا بلوچ کانفرنس کی تجویز کے مطابق ایک کمیٹی بنائے جو کہ جرگہ کی راہنمائی کے لیے سارے رسمی اور روایتی قوانین کو کتابی صورت میں مرتب کرے۔ بلوچستان اینڈ آل انڈیا بلوچ کانفرنس نے تعلیمی ترقی کے معاملے پر کافی توجہ دی ہے ۔ کانفرنس متفقہ طور پر راضی ہوئی ہے کہ حکومت سے کوئٹہ میں ایک ڈگری کالج کھولنے کا مطالبہ کیا جائے اور ہرقصبہ اور گاؤں میں سکول کھولے جائیں۔ لوکل گورنمنٹ اس خواہش کی تکمیل کے لیے مناسب اقدامات کرے ۔ میراخیال ہے کہ فوری طور پر پرائمری تعلیم کولازمی بنانے کا اعلان کیا جائے۔ میں امید کرتا ہوں کہ بلوچستان کی لوکل گورنمنٹ تعلیم کے معاملے میں دلچسپی لے گی۔ بلوچستان وجود کی جدوجہد میں انڈیا کے سارے صوبوں کے ساتھ آگے بڑھنے میں بہت مصمم ہے اور ایک لمحے کے لیے بھی اپنی تعلیمی اور سیاسی پسماندگی برداشت نہیں کرسکتا جو کہ قومی افتخار اور سیلف ریسپیکٹ کے خلاف ہے‘‘۔
****
بلوچ کانفرنس کے زعمانے مگسی صاحب کے اِس مضمون کو اپنا منشور بنائے رکھا۔ آگے چل کر ہم دیکھیں گے کہ بلوچ کانفرنس نے اپنی پوری سیاست اسی مضمون کے مندرجات پہ استوار کر کے چلائی۔
***
اسی مضمون کی مطابقت میں ایک اور مضمون 26جنوری1933کے ’’زمیندار ‘‘ لاہور میں چھپا۔
ہمیں زمیندار کے اُس شمارے تک تو رسائی نہ ملی البتہ اس کا انگلش ترجمہ بلوچستان آر کائیوز میں ملا جو ایس پی سبی وکوئٹہ پشین نے اے جی جی بلوچستان کو بھیجا تھا۔ ہم اِس اردو سے انگلش میں ترجمہ کردہ مضمون کو پھر اردو میں ٹرانسلیشن کرنے پہ مجبور ہیں ۔ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اس خوبصورت مضمون کا مصنف وہاں کون تھا ،اس لیے کہ ایس پی صاحب کے ارسال کردہ میمو رنڈم میں مصنف کا تذکرہ نہیں ہے۔
اس مضمون کا عنوان ہے:بلوچ رہنماؤں پر حکومت کی عنایات۔اور اس کی ذیلی سرخی ہے:بلوچستان کی بیداری پر حکومت کو تشویش۔
’’ آل انڈیابلوچ کا نفرنس کے کامیاب اختتام نے لوگوں کے اُس طبقے کو پریشان کر دیا جو جوبلوچوں کی عمومی بیداری کو اپنے لیے خطرناک سمجھتا ہے ۔ جس وقت نواب یوسف علی عزیز مگسی اور اس کے رفقا نے ایک بلوچ کانفرنس منعقد کرنے کا منصوبہ بنایا تو ہم نے پیش گوئی کی تھی کہ بلوچستان کے حکام اُسے پسندیدگی سے نہیں دیکھیں گے۔اب ہمیں اس کی مطابقت میں اطلاعات مل رہی ہیں ،کہ چیف آف خاران کے بھائی نواب زادہ میر شہباز خان کو گرفتار کیا گیا اور 2000کی ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ عبدالعزیز کرد سے 2000روپے کی ضمانت مانگی گئی ۔تازہ اطلاع یہ بھی بتاتی ہے کہ کانفرنس کے دوسرے ورکرز کو بھی قانون کے شکنجے میں لانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ یہ حقیقت بلوچ معتبرین کو بہت ہراساں کر رہی ہے۔
’’ہم حکام سے یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ بلوچ کانفرنس کے کون سے اقدامات یا قراردادیں انہیں آزردہ کر رہی ہیں؟۔ اور ان کے پاس اپنے استبدادی اقدامات کو جواز بخشنے کی کیا مناسب بنیادیں ہیں؟۔ سب سے بڑی باتیں یہ تھیں کہ بلوچ کانفرنس نے دوسرے صوبوں کے برابر کی اصلاحات کرنے کا مطالبہ کیا، تعلیم کی تیز رفتار ترقی کی سفارش کی ، اور برے رسموں کے خاتمے کی ضرورت پر زور دیا۔ حکومت بلوچستان بتائے کہ اصلاحات کا مطالبہ ،یا تعلیمی سہولیات ، یا قوم کی توجہ اس کے برے رسومات کی طرف مبذول کرانا انڈین پینل کوڈ کے کس دفعہ کے تحت ایک جرم ہے؟۔ مندرجہ بالا کی سزاچیف آف خاران کے بھائی میرشہباز خان کی گرفتاری ، اور عبدالعزیز کر د سے 2000ضمانت کی طلبی سے ظاہر ہے۔
’’بلوچ کانفرنس پر انتہا پسند تنظیم ہونے کا الزام نہیں دیا جاسکتا ۔ صدر، عزت مآب خیر پورکے میر کی (انڈین نیشنل)کانگریس سے دشمنی ایک جانی پہچانی حقیقت ہے جس کا حوالہ اُس نے اپنی صدارتی تقریر میں بھی دیا ۔ کانفرنس کے شرکا میں قبائل کے سرداروں کے نمائندوں کے نام بھی دیکھے جاسکتے ہیں، جن سے ایک لمحہ کے لیے بھی مروجہ طاقت کے خلاف ایک لفظ کہنے کی جرات کرنے کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔ نواب یوسف علی خان مگسی قبیلے کا سردار ہے۔ نوابزادہ شہباز خان چیف آف خاران کا بھائی ہے۔ جہاں تک عبدالعزیز خان کرد کا تعلق ہے تو اُس کا ’’مسلم نقطہِ نظر‘‘ اس قدر دور گیا ہے کہ یہ تک کہا جاسکتا ہے کہ وہ محض حکومت کے خیالات کو دوہرارہا ہو ۔ یہ اشخاص اپنی ذمہ داریوں کا ادراک رکھتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ اُن کی قومی اور قبائلی ذمہ داریاں انہیں میانہ روی کی راہ سے باہر دھکیلنے نہیں دے سکتیں۔
’’آل انڈیا بلوچ کانفرنس کا سابقہ جنرل سیکریٹری غلام سرور خان لکھتا ہے کہ حکام نے اُسے کانفرنس میں مدد کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی، اور یہ کہ نتیجتاً فخرِ بلوچستان‘ نواب یوسف علی خان مگسی ، سردار غلام رسول خان کورائی اور وکیل غلام قادر خان نے ڈپٹی کمشنر کا انتظار کیا تھا جن سے وعدہ کیا گیا تھا کہ ڈپٹی کمشنر اُن کی مدد کرے گا، اور یہ کہ کمشنر بھی اُن کی مدد کرنے سے نہیں رکے گا۔ اصل حقائق توہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ قومی کارکنوں کو ہراساں کرنے کی کوششیں کیوں ہورہی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نواب زادہ میر شہباز خان کو اپنی ریاست واپس لوٹنے کے لیے مجبور کیا جارہا ہے اور یہ کہ وہ یہ کہہ کر انکار کرتا ہے کہ برٹش بلوچستان میں اس کی پوزیشن ایک سیاسی پناہ گزین کی ہے ، اور یہ کہ وہ اپنے جائز حقوق کی بحالی کی درخواست کرتا ہے جو ریاست نے ضبط کر رکھے ہیں ۔ مناسب ہوتا کہ حکومت درجِ بالا کے مداوا کے لیے اقدام کرے، نہ کہ اُسے گرفتار کرے اور 2000روپے کی ضمانت طلب کرے۔
’’ہم واضح طورپر حکومت کو خبردار کرتے ہیں کہ ہمارے خیال میں حکومت کی طرف سے یہ کوششیں کو تاہ بین اور گمراہ ہیں ۔ اس سے زیادہ سنگین کوتاہ بینی اور کیا ہوسکتی ہے کہ حکومت شروع دن سے قومی بیداری کی تحریک سے مخالفت کرے اور یوں پوری قوم کے اندر بے چینی کی آگ بھڑکائے ، جس کی بہادری اور خود ایثاری اب تک اُن کے ساتھ رہی ہے۔ گرفتاری کی تفصیلات ابھی تک نہیں پہنچی ہیں، مگر ہمیں یقین ہے کہ عبدالعزیز کرد نے ایسا کوئی اقدام نہیں کیا جس پہ اُسے گرفتار کیا جائے اور ضمانت طلب کرنا لازم ہو۔ زیادہ سے زیادہ اس نے کانفرنس کی قراردادوں پر عمل کروانے کی کوشش کی ہوگی یا خود اپنی قانونی حق رسی پر اصرار کیا ہوگا۔ معمولی بنیادوں پر اس طرح کی اندھادھند گرفتاریاں شروع کرنااور ضمانتیں طلب کرنا عقلمندی یا دانشمندی کا ثبوت نہیں ہیں ۔
’’آئینی ترقی کی خواہش کرنا ایک انقلابی جذبہ نہیں ہے جو کہ حکومت کی ناراضگی کو ابھارسکے ۔ اس مقصد کے لیے بقیہ ہندوستان میں اٹھائے گئے شاندار اقدامات کو حکومتِ ہندوستان نے خوشی سے تسلیم کیا۔ اگر مستقبل میں طرزِ حکومت کے اندر ایک معزز پوزیشن کی خواہش کرنا انقلاب اور نافرمانی ہے، تو پھر کیا مسٹر سرپُو، مسٹر جیکار، علامہ اقبال ، آغا خان، اور راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کے دیگر مندوبین کو انقلابیوں اور فسادی لوگوں کے ایک گینگ کے بطور لیا جائے؟۔ اصل میں راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کا انڈین درجہ کو بلند کرنے کے سوا اور کیا مقصد تھا۔ آل انڈیا بلوچ کانفرنس واقعتا بلوچستان کی ایک راؤنڈ ٹیبل کانفرنس تھی۔ اس کی کاوشوں کو شک کی نگاہ سے دیکھنا حکومت کی تنگ نظری کی ایک مثال ہے ۔ اگر ریاستی حکام کے خیال میں کسی قوم کی خود اپنی حالت کو بلند کرنے کی کوششیں سزا کے لائق ہیں توپھر انہیں گورنمنٹ آف انڈیا کو ساری کونسلوں ،اور اسمبلیوں کے دروازوں کو تالا لگانے کی سفارش کرنی چاہیے ۔ ہم حکومت کی دلیل کو وزن دینے کو تسلیم نہیں کرتے کہ وہ عوام کی خود کی ترقی کی کوششوں سے ہمیشہ خوش ہے ، اس لیے کہ اگر ایسا ہوتا تو وہ آل انڈیابلوچ کانفرنس کی مختلف قراردادوں میں اپنے کوتاہ بین اقدامات سے بلوچ جیسی امن پسند قوم کو کبھی تکلیف نہ پہنچاتی۔ ڈپٹی کمشنر اور کمشنر کا شکریہ ادا کیا گیا اور حکام کے ہمدرددانہ رویے کو احسان مند انداز میں تسلیم کیا گیا۔ لہذا ایک ایسی معصوم کانفرنس پہ حکام کی طرف سے اس طرح کی گھبراہٹ نہ صرف یہ کہ بہت دلچسپ ہے بلکہ بہت سبق آموز بھی ہے ۔ ہم حکومتِ بلوچستان کو خبردار کرتے ہیں کہ اقوام کے احساسات کو ایک سخت گیر پالیسی سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ بلوچستان کی قبائلی تحریک غیر ضرررساں ہے، اور اس پر شک کرنا بے عقلی ہے۔ اس طرح کے اقدامات عوامی احساسات کے لیے برے ہیں اور عوامی رائے کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔۔۔۔‘‘۔
***
انگریز اور قلات حکومت مل کر بلوچ کانفرنس کے رہنماؤں کو گرفتار ، جرمانہ اور ملازمتوں سے برطرف کرنے اور اُن کے تبادلے کرنیمیں لگ گئیں۔ اِن آمرانہ اقدامات کے خلاف جمہوری لوگوں کا رد عمل آپ پچھلے صفحات میں پڑھ چکے ہیں۔ بلوچستان کے یہ لیڈر صرف انگریز وخان کے عوام دشمن اقدامات کی مذمت ہی نہیں کر رہے تھے بلکہ وہ جمہوری سرگرمیوں میں مزید تیزی لاکر ان اقدامات کا جواب بھی دے رہے تھے ۔ مثلاًسبی پولیس نے پی اے سبی کو 3فروری 1933کو ایک ممیورنڈم میں روزنامہ زمیندار کی ایک خبر کے بارے میں اطلاع دی جس کے تحت عید کے دن یوسف عزیز مگسی نے شہدا د کوٹ میں دوتقریریں تھیں۔ ایک عید نماز پر اور ایک اُسی دوپہر کو۔ دونوں تقریروں کا خلاصہ یہ تھا کہ بلوچ قوم کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے نوجوانوں کو متحدہ کوششیں کرنی چاہییں۔
ایک دلچسپ انکشاف یہاں یہ کیا گیا کہ’’چنانچہ شہداد کوٹ میں ایک ینگ مینز ایسوسی ایشن قائم کی گئی یوسف علی اُس کا پہلا صدربنا‘‘۔(اس YMAکا بعد میں کیا بنا، معلوم نہیں)۔
اسی طرح بلوچ کانفرنس سے وابستہ لوگ تحریر میں بھی مخالفین کا خوب خوب بھانڈا پھوڑ رہے تھے ۔ بروقت ، بر محل اور برجستہ طورپر ۔ اس سلسلے میں ہمیں بلوچستان آرکائیوز کے یوسف مگسی سے متعلق فائل میں انگریز کا ایک جاسوسی مراسلہ ملا جس میں ماتحت نے اپنے افسر کو روزنامہ زمیندار 5فروری1933کے ایڈیٹوریل کالم میں شائع شدہ ایک مضمون کا انگریزی میں ترجمہ کر کے بھیجا۔ اس ترجمہ کو میں نے پھر اردو میں ڈھالا ہے ۔ مضمون کا نام ہے:زمین جنبد نہ جنبد گل محمد:
’’ضرب المثل ہے کہ ایک عقلمند دشمن ایک احمق دوست سے بہتر ہے۔ انگریز لوگ جو سمندر پار سے آئے۔ براعظم ہند کے 35کروڑ لوگوں کی تقدیروں کو کنٹرول کرتے ہیں، اور وہ مندرجہ بالا محاور ے کے فلسفے سے خوب واقف ہیں۔ یہ درست ہے کہ کبھی کبھار وہ اپنے سامراجی مقاصد کی خاطر اپنے احمق دوستوں کوآلہ کار بنانے سے نہیں جھجکتے ، اور وہ دوست اس قدر احمق ہیں کہ یقین کر لیتے ہیں کہ اس ملک کے اعزاز یافتہ اور خالی الذہن لالچی لوگوں کی کونسل برطانوی حکومت کا سنگِ بنیاد ہے۔ انگریز جو کہ حکمرانی کے قانون میں ماہر ہیں ان خوشامدی اشخاص سے کبھی خوش نہیں ہیں اور اپنے مقاصد حاصل کرنے کے بعد انہیں ٹھڈے مارکر نکال باہر کردیتے ہیں۔
’’انڈین گورنمنٹ کے ایسے احمق دوستوں میں’’کے بی گل محمد ‘‘کا خاص مقام ہے ۔ تقدیر نے اُسے ریاستِ قلات(بلوچستان) کی وزارت عطا کی ہے ، اور اس نے بجائے اس کے کہ ریاست کے اصل مفادات کے تحفظ ( جس کے ذریعے تعلیم لازمی اور عام ہوجاتا‘زراعت کی حوصلہ افزائی ہوتی ، تجارت بڑھتی ،اور ،رعایا خوشحال ہوتی ) کرنے کے لیے اس اعلیٰ عہدے کو ذریعہ بناتا ، وہ اپنی شرمناک کوششوں کے ذریعے اُن صحیح سوچنے والے لوگوں کے بارے میں اعلیٰ حکام کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہوگیا، جن کا واحد جرم یہ ہے کہ وہ زمانے کے ساتھ ساتھ چلنے کی خواہش رکھتے ہیں ، اور اپنے صوبے کے لیے وہی مقام حاصل کرنے کا مصمم ارادہ کر چکے ہیں جو کہ نئے آئین کے اندر دوسرے صوبے حاصل کر چکے ہیں۔
’’جیکب آباد کی بلوچ کانفرنس نے کچھ قرار دادیں صرف ایجوکیشن اور بلوچوں کی سماجی ومعاشی ترقی کے لیے منظور کیں۔ سیاست میں انہوں نے معتدل اصلاحات کا مطالبہ کیا ۔مگر یہاں کے بی گل محمد خان اور اس کے کچھ دوستوں نے خود کو باور کرانے پر مجبور کیا کہ اس کانفرنس میں انقلاب کے جراثیم پوشیدہ تھے ۔ وہ یہ ثابت کرنے کے لیے اپنا پورا زور لگا رہے ہیں کہ کچھ قومی کارکن برطانوی حکومت کے’ بدخواہ ‘ہیں اور لہذا اپنے لیے نئے اعزازات اور عہدے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ برطانوی حکمرانوں کے ساتھ خواہ ہم جو بھی سیاسی امور میں اختلافات رکھتے ہوں۔ پھر بھی ہم انہیں عقل اور جمہوریت سے اس قدر محروم نہیں سمجھتے کہ وہ کے بی گل محمد خان جیسے جدی پشتی بھکاریوں کی بکواس سے گمراہ ہوں گے۔
’’ہم کے بی کو اس طرح کی بے جواز وفاداری کرنے سے بازرہنے کو خبردار کرتے ہیں، اور بلوچستان کے گونگے مسلمانوں پر ترس کھانے کا کہتے ہیں ،بصورت دیگر ہم رازوں کو افشاکرنے پہ مجبور ہوں گے جو یقیناًاس کے مستقبل کی امیدوں پر پانی پھیر دیں گے ۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ مضمون گل محمد کی پالیسی میں تبدیلی لائے گا اور یہ کہ اس تکلیف دِہ موضوع پر دوبارہ آنے کی ضرورت نہ رہے گی۔ بلوچستان میں اے جی جی سے بھی درخواست ہے کہ وہ اپنی آنکھیں اور کان کھلی رکھے ۔ اور جب تک وہ خود سنے یادیکھے نہیں اُس وقت تک چاپلوس اشخاص کی بکواسیات سے متاثر نہ ہو۔
’’آخر میں ہم اُن اشخاص کو بتا دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں ، جو کہ قوم کو جگانے کے لیے اور اس کی تعلیمی اور معاشی بڑ ھوتری کے لیے اپنا پیسہ اور وقت فراوانی سے خرچ کر رہے ہیں ،کہ وہ توانائی کے ساتھ اس متبرک کام کو جاری رکھیں ، جو انہوں نے اس یقین کے ساتھ شروع کر رکھا ہے کہ انڈیا کے سارے مسلمانوں کی دعائیں اُن کے ساتھ ہیں‘‘۔
بلوچ لیڈروں نے تقریروں تحریروں ،اور مذمتی قراردادوں کے علاوہ حکومتی تادیبی کاروائیوں کا اس طرح بھی جواب دیا گیا کہ اپنے عوام سے روابط مضبوط مسلسل رکھے ۔ لوگوں سے انفرادی اور وفود کی شکل میں ملاقاتیں کیں۔ عام قبائلی معاملات بھی ہوں تو انہیں وسعت دے کر قومی اور سیاسی موضوعات میں بدل دینے کی کوششیں کیں ۔ چنانچہ انگریز کے جاسوسی رپورٹوں میں تذکرہ ہے کہ ’’نواب زادہ یوسف علی خان اپنے ملازم محمد سما ولد احمد علی راجپوت آف گجرانوالہ پنجاب ،دو فروری 1933کو جیکب آباد سے سبی پہنچا۔ اور اُس کا ارادہ دو ہفتے تک رہنے کا ہے‘‘۔
ایک اور رپورٹ میں سبی سے اس کی واپسی 27فروری کو ہوئی۔یعنی وہ 25دن سبی ٹھہرا۔
یوسف عزیز کی سبی میں موجودگی کا مقصد محض لوگوں سے میل ملاقات نہ تھا۔ سبی کا توویسے بھی بلوچ سیاست میں گہرا مقام رہا ہے۔ سردیوں میں تقریباً سارا بلوچستانی دانشور، سیاست دان ، اور سردار یہاں ڈیرہ ڈالتے رہے ہیں۔ میلہ مویشیاں میں تو لائیوسٹاک اور زراعت سے وابستہ لوگ بھی یہیں کارخ کرتے ہیں۔ یوں یہ شہر موسم سرما کے دوتین مہینوں تک سیاسی سماجی اور معاشی سرگرمیوں کا مرکز بنا رہتا ہے ۔
یوسف مگسی کے طویل قیامِ سبی کے دوران پارٹی (بلوچ کانفرنس )نے اپنی ورکنگ (مرکزی ) کمیٹی کا اجلاس یہاں منعقد کیا ۔ یہ اجلاس8 فروری1933 کو رات کے گیارہ بجے سبی میں سردار مگسی کے بنگلہ پرہوا جہاں آل انڈیا بلوچ کانفرنس کی ورکنگ کمیٹی کا نائب صدرنواب زادہ میر یوسف علی خان ٹھہرا ہوا تھا۔ آل انڈیا بلوچ کانفرنس کی ورکنگ کمیٹی کے ا جلاس کی صدارت اس کے چیرمین خان عبدالصمد خان اچک زئی نے کی ۔ اور مندرجہ ذیل قراردادیں پیش ہوئیں۔
۔-1 بلوچستان اینڈ آل انڈیا بلوچ کانفرنس کی ورکنگ کمیٹی کا یہ اجلاس سیٹھ عبداللہ ہارون ایم ۔ ایل۔ اے کا شکریہ ادا کرتا ہے کہ انہوں نے مرکزی حکومت کی توجہ کانفرنس کی منظور کردہ تجاویز اور بلوچستان کے فطری حقوق کی طرف مبذول کرائی۔ اور امید کرتا ہے کہ وہ آئندہ بھی اسی طرح بلوچستان کی نمائندگی کرتے رہیں گے۔
۔-2 بلوچستان اینڈ آل انڈیا بلوچ کانفرنس کی ورکنگ کمیٹی کا یہ اجلاس پنجاب کے مسلم روزنامہ ’’ سیاست‘‘ کے اس طرز عمل کو جو اس نے کانفرنس کے عام مفاد کے خلاف اور قومی کارکنوں خصوصاً ہمارے محترم نواب زادہ میر یوسف علی خان کی بے جا مذمت میں اختیار کیا ہے نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور امید کرتا ہے کہ پنجاب کے قومی جرائد مدیر ’’ سیاست‘‘ کو آئندہ ان ناجائز اور غیر ذمہ دارانہ اقدامات سے باز رہنے کی تلقین فرمائیں گے۔
۔-3 کانفرنس کی منظور کردہ تجاویز متعلقہ اصلاحاتِ معاشرہ، تعلیم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ورکنگ کمیٹی کا اجلاس سرداران و نوابان بلوچستان سے درخواست کرتا ہے کہ وہ اس تعمیری و اصلاحی فرض کو اپنے ذمہ لے کر ان کی ترویج و تبلیغ کی ہر ممکن کوشش کریں اور بلوچی کی لاج رکھیں۔ نیز یہ اجلاس ان کو یقین دلاتا ہے کہ اس کار خیر میں ورکنگ کمیٹی کے تمام مقامی ارکان ہر وقت ان کا ہاتھ بٹانے کے لیے مستعداور تیار ہوں گے۔

۔-4 بلوچستان اینڈ آل انڈیا بلوچ کانفرنس کی ورکنگ کمیٹی کا یہ اجلاس بلوچستان کے ان سرداروں اور نوابوں کا شکریہ ادا کرتاہے جنہوں نے اس قومی تحریک کے مفید ہونے کو تسلیم کرتے ہوئے ہمارے اصلاحی اقدامات میں ہمیں اپنی اعانت و حمایت کا یقین دلایا‘‘۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے