اتنی تنہائیاں جانے یہ کدھر جاتی ہے
دل دھلتا ہے جہاں تک بھی نظر جاتی ہے

جب اداسی میں کوئی سانس بھی لیتا ہے کہیں
برچھی سی کیوں میرے سینے میں اتر جاتی ہے

گھنگھروؤں کو تو بجا کر میں کوئی شور کروں
ایسی ہی سوچ میں یہ عمر گذر جاتی ہے

خود کو محصور کروں آنکھ کو محدود کروں
جانے کیوں سوچ بھٹک کر بھی ادھر جاتی ہے

رنگ و خوشبو سے میں جیون کو سجالوں لیکن
تیرگی ایک سیاہ رنگ ہی بھر جاتی ہے

اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں”کنولؔ "کیسے چلوں
روشنی کھینچ کے پاؤں سے گذر جاتی ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے