خواب بنتے ہیں کہیں دْور کہانی سے الگ
میں ہوں مِٹی سے الگ اور تْو پانی سے الگ

اس طرح اْس کی میں وسعت کو بڑھا دیتا ہوں
کھینچ لیتا ہوں کوئی موج، روانی سے الگ

تیرے ہونے سے در و بام مہک اٹھتے ہیں
اپنی حیرانی و بے نام و نشانی سے الگ

جھینگروں کی ہے صدا عالم و افلاک سے دور
پھول کھلنے کو ہیں اب رات کی رانی سے الگ

میں جو چْھوتا ہوں چھلک اٹھتے ہیں کچھ رنگ نئے
ہونے لگ جاتے ہیں الفاظ معانی سے الگ

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے