مزاج پرسی ، سلام ، دکھ ہے ، تمام دکھ ہے
یہ زندگی صبح و شام ، دکھ ہے ، تمام دکھ ہے

یہ چاہتیں ہیں ، یہ نفرتیں ہیں ، یہ وحشتیں ہیں
اور ان میں یکساں غلام ، دکھ ہے ، تمام دکھ ہے

کہیں پہ بھی ہو ، کسی سے بھی ہو ، قلیل ہی ہو
محبتوں کا انعام دکھ ہے ، تمام دکھ ہے

ہمیں خبر ہے ، جدا ہے سب سے مزاج تیرا
مگر یہ باہم کلام دکھ ہے تمام دکھ ہے

تو جرعہ جرعہ ہی پی رہے ہیں تمام تشنہ
شراب دکھ ہے، یہ جام دکھ ہے ، تمام دکھ ہے

ہم اپنی آنکھیں تمہاری چوکھٹ پہ چھوڑ آئے
یہ انتظاری ، تمام دکھ ہے ، تمام دکھ ہے

تو کیوں مقدر بدل نہیں پا رہا شہر کا
میں کہہ رہا ہوں نظام دکھ ہے ، تمام دکھ ہے

غریب نانِ جویں کو ترسے ، امیر لْوٹے
معاشیاتی نظام دکھ ہے ، تمام دکھ ہے

ہمیں بھی شہرت عزیز ہے سب کی طرح ، یارو
مگر یہ تازہ کلام ، دکھ ہے ، تمام دکھ ہے

یہ دل کی بستی عجیب بستی ہے ، اس میں انجم ؔ
مقیم دکھ ہے ، مقام دکھ ہے ، تمام دکھ ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے