کرنی تھی محبت اْن سے مگر اَب دِل میں نفرت بھرنی ہے
آزاد ، اکیلے ، بے رْتبہ جِیون سے دوستی کرنی ہے

جِسے چھوڑ دیا ، جِسے بھول گئے ، بَس اْوپر اْوپر بَستے رہے
اْس کھنڈر کھنڈر گہرائی میں کب فِکر ہماری اْترنی ہے

چقماق سا کْچھ جلتا تو ہے ، وہ نْور کہ قتلِ نْور ہے وہ
نہیں خبَر ہمیں قِسمت اپنی بننی ہے کہ اور بِکھرنی ہے

یہ انا کے لوگ ہیں اْلفت بھی ہے شِکار اِک ذات کا اِن کے لئے
چاہت نفرت کی لَے اِن میں ، کبھی چڑھنی کبھی اْترنی ہے

وہی اْلٹا موڑ مْڑا ہم نے ، جا پہنچے کالے پہاڑوں میں
جانے کِن مَوت کی راہوں سے پِھر زِیست ہماری گْزرنی ہے

ہَر بات کو میِٹھی گولی ہی ہم بناتے اور بنواتے رہے
اَب جھْوٹ کی کھال اْدھڑنی ہے ، سَچ بات ہی آگے دھرنی ہے

اِک حسیں ، غریب کی کْٹیا میں ، ہر آنکھ کو جو تڑپاتا ہے
کیا کر دیں کیا نہ کریں ، اِک زقند ہر دِل کو واں بھرنی ہے

اِس راہ کو تْم مَت بْرا کہو ، چلنے والے کو سلام کرو
جو راہ ہے دیکھنا اِک دن دِل سے ہمارے بھی وہ گْزرنی ہے

اَبھی ہلکی رِم جِھم ہے کاوِش ، بادل اَبھی اَور بھی برسے گا
اَبھی اَوربھی باغ کو کھِلنا ہے،اَبھی اَور بھی طبع نِکَھرنی ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے