ارتقاء

حیات احساس سے ہوعاری تو موت کی سیج کا کفن ہے
یہار محرومِ رنگ وبُوہو تو غارتِ رونقِ چمن ہے

ہمارا ایمان ہے کہ جینا ہی ابتدا اور انتہا ہے
حزیمِ جاناں سے دار تک جہد و عزم کا اِک چمن کھلا ہے

کشاکشِ غم کے ساتھ حسنِ طرب کا جادُو بھی بولتا ہے
قدم اُٹھاؤ تو کار گاہِ جہاں فقط بزمِ ارتقا ہے

حیات احساس کا نگیں ہے ، حیات انساں کا بانکپن ہے

جہاں جہاں زندگی بڑھی ہے جہاں جہاں تیرگی چھٹی ہے
جہاں جہاں آدمی کی راہوں سے سخت دیوارِ زر ہٹی ہے
جہاں فصیلِ ستم گری ہے جہاں کڑی جَور کی کٹی ہے
جہاں محبت نے داد پائی، جہاں متاعِ وفا بٹی ہے

وہاں اُجالا ہے رقص فرما ، وہاں سحر صدرِ انجمن ہے

جہاں جہاں علم و آگہی نے شعور کو اذنِ عام بخشا
نقوش کو جاوداں کیا خط وخال کو اِک مقام بخشا
خرد کو تخلیق ، فن کو تعمیر سے نکھارا دوام بخشا
جبین ورُخسارِ گل عذاراں کو حُسنِ ماہِ تمام بخشا

وہاں وہاں فن غزل سرا ہے ، ہُنر کا ہرروپ ضوفگن ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے