چاروں اَور

خوشی کی چُنری
دسترخوان سجا رہتا ہے
بادل بھی اب دوست ہوئے ہیں
رستے بھی دشوار نہیں
لیکن
چُبھتا رہتا ہے
دل میں گڑھا
مسلسل تیرے ہجر کا کانٹا !!!۔

نبض شناس

اوپر لاکھوں پھول کھلے تھے
اور وادی میں گھپ اندھیرا
اب کے اس کو بام پہ لانا
کاروبار تھا گھاٹے کا

رہائی کی نظم

عنبر بیچ
ہوا کا رقص
قوسِ قزح سی
نرم پھوار
سُرخ انگارہ آنکھوں پر
شبنم جیسی گرتی ہے
میں نے خواب میں
سرخ ستارہ دیکھا ہے

قیام

ڈیرہ ڈال کے
بیٹھ گئی ہیں
قلم کی نوک پہ
ہجر کی نظمیں

ارزاں جیون

بات بات پر
کڑھنے والے
کیا تو نے
بھوک کو دیکھا ہے
میں نے
اُس کو دیکھاتھا
میرے petکی
پلیٹ اٹھا کر کھانے والی
بھوکی آنکھیں
میری آنکھیں نوچ کے لے گئیں
غرضوں ماری دنیا کو
اب
اُن آنکھوں سے دیکھتی ہوں
اور قطرہ قطرہ گرتا جیون
سینت سینت کر رکھتی ہوں
بات بات پر کڑھنے والے

بدن کی صلیب

میں نے عشق کے الطارپر
خواہشوں کا ذبیحہ پیش کر دیا ہے
ارمانوں سے اُٹھتا ہلکا ہلکا دُھواں
محبت کے خُدا کو یقیناًاَچھا لگا ہوگا
تمہارا بدن میرے بدن کی تربیت کا خُوگر ہے
اور میرا ذہن
تمہارے ذہن کی تشکیل وتکمیل کا خواہاں
میں اَبدیت کی طرح
تمہارے چاروں اور پھیل جانا چاہتی ہوں
کہ ہر پل تمہارے اندر رہوں
ایسا صرف ’’رُوحانی اشتراک‘‘ سے ہی ممکن ہے
ہاں جانتی ہوں
بدن کی صلیب بہت بھاری ہے
میں یہاں رہ کر
جاگتی رہوں گی
اگر میں سوگئی
تو
تمہارے اپنے حواری
تمہیں پکڑ وادیں گے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے