اقلیدس ! زندگی سنو

دائرہ

مرکزِ یعنی مرے دل
کے سنگھاسن پر براجمان
"تم ”
اور دائرے کے تین سو ساٹھ زاویوں پر
یکساں
پرکار کی طرح گھومتی ہوں
میری "میں ”

تکون

زاویہ قائمہ پر
زندگی میں کسی زندہ لمحہ میں
ٹہرنے کی کوشش کرتے ہوئے
میں ، تم اور وہ

مستطیل

میری اوڑھنی اور
آس کے کونوں پر بندھے ہوئے
پیاس کے بھاری سکے
چارپائی اور۔۔۔۔۔
بان کی ستلیوں میں دھنسے
ہوئے دو خوابیدہ جسم
اور میری فبر اور اس پر لگی ہوئی
یاد کی لمبی لمبی گھاس

چوکور 

تمہاری ہتھیلی سے
اتر کر
صحن کے چارکونوں کے بیچ
خانے ٹاپٹتی ہوئی میرے گھنگھروں کی آواز
اور گول سورج سے
سانپ سیڑھی کا کھیل کھیلتی ہوئی
پیاس کی چو کور بساط

بیضوی

زخمی بیضوی پپوٹوں سے ڈھلے
خوابیدہ آنکھوں کے پیالے
اور قطب نما جیسی پیاس
پھر بھی۔۔۔۔۔
بیضوی ناخنوں سے اکھڑتی ہوئی
راستے ٹاپتی ہوئی میری آس

مماس 

زندگی کے باضابطہ سیدھے رشتوں کی
لکیروں کے درمیان سے
خواہش کی لمبی حیران کن جست
زندگی کے خم دار لوچ کی
حرارتوں کے لمس میں
میرا راکھ ہونے کا ارادہ

ستارہ 

آسمان تک کے لامتناہی
فاصلوں کے دھویں سے
خود کو بھرتے ہوئے پتلیوں کے
ٹوٹتے اور توڑنے والے دائرے
اور ان میں ٹمٹتاتے ہوئے
شوق کے نمکین ذائقہ دار آنسو

لکیر

وقت کی خلا میں
افقی عمودی اور۔۔۔اخترن
تمہاری طرف سرکتے ہوئے
خوابیدہ مسام
اور بے سمتی اور لامکانی سے
جڑے گماں و یقین کے
بنتے بگڑتے ہزار ہا نقاط

0Shares
One thought on “ثروت زہرا”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے