من تو شدم۔۔

کتنے دن سے
ہونٹ صحرا کی سلگتی ریت کے اوپر پڑے ہیں
جل رہے ہیں
اب انہیں جھرنے پہ رکھ دو
کھردری بوری پہ دیکھو
جسم کب سے چھل رہا ہے
روئی لے کر برف کی
اک نرم سا بستر بنادو
کتنی مدت سے نہیں سویا سلا دو
روح کانٹے دار جھاڑی میں کہیں اٹکی ہوئی ہے
زخم خوردہ ہو گئی ہے
اس کو پھولوں سے بھری ڈولی میں لاؤ
موم کے پھاہے بناؤ
اس کے زخموں پر لگاؤ
اور آنکھیں
آبنائے دل تلک سو کھی ہوئی ہیں
اوس میں بھیگے ہوئے دو سبز پتے
ان پہ باندھو
ایک دن مجھ میں سماؤ
اور پھر بارش میں بھیگو
آبشاروں میں نہاؤ
گھاس کی ہریالی تلو ؤں میں اتارو
پیڑوں سے لپٹو پھلوں سے رس نتھارو
ابر میں بھیگی دھن ک پہنو
شفق کا غازہ لو
خود کو سنوارو
ایک شب سپنے میں آؤ
بیچ کی دیوار ڈھا دو
فاصلے سارے مٹا دو
ایک کر دو ،دو سے ہم کو
ایک کر دو
سب وجود اور سب عدم کو

شب زدہ شہرِ خموشاں

سیاہ پیڑ رات کا
زمیں کے مر مریں سفید جسم پر
گرا رہا ہے زرد پات خواب کے
اور نیلے توت ماہتاب کے
طلسمی طائروں کے پر
لٹک رہے ہیں اس کی شاخ شاخ سے
ستارگاں کے گھونسلے سے گر رہے ہیں
بیضہ ہائے آبگینہ
بے خبر تڑاخ سے
سو رہی ہیں داسیاں اداسیاں
مہیب سائے بن رہے ہیں
داغ گہرے وقت کے لباس پر
گماں کی ریت جھڑ رہی ہے
پڑ رہی ہے زندگی کی گھاس پر
سیاہ پیڑ رات کا
اکھیڑنا کو تو دور ذکر چھیڑ نامحال ہے
زمیں کے مر مریں سفید جسم پر
صدا دہندہ آدمی کا کال ہے

فاختہ کا شہر آشوب 

پیاس سراب کی گھاس نہ ہوتی
دودھ نہائی ریت نہ ایسے کالی پڑتی
تازہ اور رسیلے بادل
گرد گزیدہ ہوا کی بگھی میں بن برسے
دور نہ جاتے
پیپ شراب سے بھرے نہ ہوتے چھالے پیالے
تیز بگولے لیے نہ پھرتے وحشت کی مکڑی کے جالے
اونٹ سواری کرنے والے کینے کی فصلیں نہ اگاتے
آنکھوں کی ندی میں ناؤ کھینے والےآآس کھیویئے کبھی نہ تھکتے
ناؤ میں بیٹھی ناری کو نیند نہ آتی
رستہ تکتا آخری سانسی ں بھر تا ہوا
امکان نہ مرتا
دشت میں بین کے بھجن نہ بہتے
ڈار سے بچھڑی کونج نہ روتی
اڑتے پر ندے کھانے والے
عفریتوں کی قصہ خوانی
کتوں کے ڈھانچوں میں بسیرا کرنے والی
چھپکلیوں کے ہاتھ نہ ہو تی
سیبوں آسیبوں کی کہانی
زرد رتوں کی دیمک کی جیبوں کے چاٹے
خشک شجر تخلیق نہ کرتے
خواب کے خیمے
گھور اندھیرے صحراؤں کی حد میں نہ ہوتے
شہر ہمارے
جنگل ہوتے زیتونوں کے
تو ہم خوف کی زد میں نہ ہوتے

اچھوتوں کے اشلوک

جنگل شہر سے
دور
جنگل شہر کے
پاس
جنگل شہر کے
بیچ

وحشت حرف سے
دور
وحشت حرف کے
پاس
وحشت حرف کے
بیچ

کرگس خواب سے
دور
کرگس خواب کے
پاس
کرگس خواب کے
بیچ
ہم اس یگ کے باسی جس میں
افضل بن اور ریچھ!۔
چاند ، چکور ، عبادت گاہیں
اور کبوتر
نیچ

ایک نظم انسانوں کے لیے

رات رات بھر
گلیوں گلیوں
پھرتے ہیں بے کار
مرد ے رہتے ہیں گھر گھر میں
یہ ہیں پہرے دار
ان کی نیندیں
ان کے سپنے
آنکھوں میں بیدار
شہر کی رونق
ان کی تانیں
یہ سب موسیقار
اپنے نالے
اپنے کچرے
خود اپنے سردار
اپنے اپنے سر کے وارث
اپنے ذمے دار
اپنی اپنی دھن میں مگن
اک دوجے سے بیزار
ہر لمحہ جینے کے خواہاں
مر نے کو تیار
سب کے سب خوددار
کتے میرے یار
کتے میرے یار

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے