نظم
مرے بدن پر ہے بوجھ اتنا
کہ انگ سارے
چٹخ گئے ہیں
میں دھار مِک بھاوناؤں کا
اک وِشال پتھر
اٹھاکے
صدیوں سے پھر رہا ہوں
برمُودا مُثلث
جذبے سارے گم گشتہ ہیں
لوگوں کی گویائی کم ہے
آنکھوں کے دپپک روشن ہیں
پر ان کی بینائی گم ہے
ظلم وستم کی ارزانی ہے
مصنف کا انصاف بھی گم ہے
آوازوں پر دائم قد غن
سُرمفقود ہے ساز بھی گم ہے
جو خاموش ہیں جی سکتے ہیں
جو کچھ بولا یکسر گم ہے
اس دھرتی پر سب کچھ گم ہے
چاروں جانب برمُودا ہے