آئینہ دل 

میرے دل کے اک خانے میں
غم پیر پسارے بیٹھے ہیں
تم بھی تو اک غم ہی ہو ناں
اک خانے میں دلدل ہے
اس میں جکڑی ہیں کچھ یادیں
آنسو ،آہیں اور تصویریں
باتیں ،شکووں کی زنجیریں
لاکھ رہائی دینا چاہوں
اور بھی جکڑی جاتی ہیں
پہروں مجھے رلاتی ہیں
اک خانہ خواہش کا ہے
جس میں کتنی ہی قبریں
کتبوں سے محروم سہی
منظر کچھ دل گیر سا ہے
حسرت ہے اور درد اگے ہیں
جانے کیسے لاشے ہیں یہ
جانے کن کی موت ہوئی ہے
کیا یہ اتنی ارزاں تھیں ؟
خون ابھی تک رستا ہے
اک خانے کے در پہ دیکھو
لاتعداد سوالی ہیں
شاید یہ دنیا کا ہو گا
کرلاتا سناٹا باہر
اندر جامد خاموشی ہے
باہر اک ہجوم سہی
پر اندر سے یہ خالی ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے