ساٹن ، مفلر اور گھنٹی 

میں دیکھتا ہوں
سفید سا ٹِن !۔
سفید ساٹِن پہ لال دھاریں
یا نیلے دھبّے بنے ہوئے ہیں
سیاہ مُفلر!۔
سیاہ مُفلرسے
گرم سانسوں کی بھاپ اُٹھتی ہے
اور پتیل کی ایک گھنٹی ۔۔
اجاڑ دیتی ہے
خواب میرا

’’بابا۔۔!‘‘

میری پہلی محبت کی
گھنی زلفوں میں چاندی کا
چمکتا تار آیا ہے
تو لگتا ہے ۔۔
سنہری بالیوں کی نرم گردن پر
نہیں۔۔۔ یہ بھاری بُوٹ میرے سینے پہ آیا ہے
مجھے اب خشک سالی بھی
عجب اک نامرادی اور ۔۔ نامرادی
کا سا احساس دیتی ہے
پُھلا ہی کی یہ باڑیں جن میں
اُن کجراری آنکھوں والی بھیڑیں ہیں
مجھے لگتا ہے اُونچائی میں کم ہیں
اور وادی میں بہت سے بھیڑیئے بھی ہیں
مجھے ان سب سے لڑنا ہے
تمہارا دوست بننا ہے
کہو بابا۔۔۔!
دوبارہ جی اُٹھو گے کیا!۔
خدارا جی اُٹھو گے کیا!۔
تمہارا دوست بننا ہے
تم میرے دوست بنو گے کیا!۔

اک لاپتہ نظم

آج کٹورا پانی کا گر
ہاتھ سے تیرے، گرجائے تو
سانوری لڑکی مت گھبرانا!۔
شام ڈھلے جب بھوری گھوڑی
نظم مری گَر کوئی لے گر
ایک اکیلی لوٹ آئے تو
سانوری لڑکی مت گھبرانا!۔
جان تو آخر جانی ہے نا!۔
آج نہیں تو کل جائے گی
نظم اَمر ہے پڑھتی رہنا
نظم ہے تیرے سر کی چادر
بھیڑ میں غم کی چل جائے گی
زرد کٹوروں میں پتیل کے،
آس بھرے سب مشکیزوں میں
روپ بدل کر ڈھل جائے گی
دیکھنا تیرے ماتھے پر یہ
صبح کا سورج مل جائے گی
رات اگر چہ جاڑوں کی ہے
رنج نہ کر ناٹل جائے گی

گَرد

گرد بستر سے جھڑ نہیں پاتی
روز کہتا ہوں جھاڑ ڈالوں گا
جانے کیسے، کہاں سے آتی ہے
اک خلائے رواں کے ساحل سے
کاروبارِ جہاں کے حاصل سے
بے سبب اک اداس بستی کی
بارشوں میں اَٹی منڈیروں سے
شہرِ غربت کی چَوڑی سڑکوں پر
سست قدموں سے ، تیز قدموں سے
کم سنی کے کسی تو ہم میں
سرخوشی کی شکستہ قبروں سے
یا کسی کے گداز پہلو میں
صد گریزاں نسائی سانسوں سے
خیر ، جیسے ، جہاں سے آتی ہے
زود محسوس غم کے رستوں سے
دیر محسوس غم کے رستوں سے
میری راتوں کی نصف بہتر پر
بے دلی کی سفید چادر پر
آن گرتی ہے گردبستر پر
روز کہتا ہوں جھاڑ ڈالوں گا

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے