’’ہو جا‘‘ 

دھوپ میں رنگ بانٹنے والے
’’ہم ترے‘‘ رنگ دیکھتے ہیں اور
سایہ سایہ اداس پھرتے ہیں

ہم کو حیرت میں ڈالنے والے
عکس در عکس ، کیا کہانی ہے
چار اطراف کھارا پانی ہے
درد نیلی رگوں میں بہتا ہے

بیچ منجدھار چھوڑنے والے
اُلجھنوں کا شکار ہیں ہم لوگ
جل اُٹھے اور بُجھ گئے خود میں
آپ اپنا مزار ہیں ہم لوگ

آسمانوں کو دیکھنے والے
ایک پل بھی نہیں فراغت اور
کام کوئی نہیں ہے کرنے کو
بات کچھ بھی نہیں ہے کہنے کو

ڈھونڈ لیتے ہیں ڈھونڈنے والے
عشق کی اور جنون کی راہیں
اپنے اپنے سکون کی راہیں
اور کُن_فَیَکُون کی راہیں…..! ۔

پانیوں پہ نشاں نہیں رہتے 

شوقِ وارفتگی میں دیکھا ہے
آدمی کرچیوں پہ چلتا ہے
اکثر اوقات گر بھی جاتا ہے
چوٹ لگتی ہے، درد ہوتا ہے

دھول اڑتی ہے اردگرد یہاں
حبس رہتا ہے سارے موسم ’’اور‘‘
گرد آلود سارے منظر ہیں ! ۔

زندگی ،،، طاقچے پہ رکھی ہے
اک دیا سا یہ جلتا، بجھتا ہے
اور فضا سوگوار ہوتی ہے
جب پتنگے کسی تعاقب میں
آگ کے گرد رقص کرتے ہیں ! ۔

ہیں بظاہر یہ طاقچے روشن
ان چَراغوں تلے اداسی ہے

ایک صحرا ہے سامنے اپنے

دھول سانسوں میں اڑتی پھرتی ہے
شام کن جنگلوں میں اتری ہے
روشنی تیرگی میں ڈھلتے ہی
روز خوابوں کو ہم جلاتے ہیں
اپنی ہستی مزار لگتی ہے
راکھ بکھری پڑی ہے آنکھوں میں !۔

شوقِ وارفتگی میں چلتے ہیں

ٹھیک سے سانس بھی نہیں ملتی
اور مسلسل سفر میں رہتے ہیں
زندگی تیرا بوجھ ڈھوتے ہیں
ہم کو اجرت میں کچھ نہیں ملتا

ڈور کا اک سرا ہے ہاتھوں میں
دوسرا ہے کہاں نہیں کُھلتا

کچھ گھروندے ہیں ریت پر سہمے
باقی مسمار ہو گئے ہوں گے
نقش سب دھو دیئے ہیں لہروں نے ! ۔

ہم بھی حصہ رہے تماشے کا
ہم بھی کردار تھے کہانی میں
پھر یہ ساحل پہ کیونکر آ نکلے
جانے کیا ڈھونڈنا تھا پانی میں

پانیوں پہ نشاں نہیں رہتے

نظم ہے ’’بلوچستان‘‘

تناؤ روز بڑھتا جا رہا ہے
سویرا دیکھے بھی اب تو کئی دن ہو گئے ہیں
کئی کردار میرے کھو گئے ہیں

کوئی مدت عجب سے حال میں
اُلجھے ہوئے ہیں
ستارا، فال میں اُلجھے ہوئے ہیں

کسی دیوارِ گریہ سے لگے بیٹھے ہوئے ہیں
اور اکثر سوچتے ہیں
یہ میرا بویا کب تھا
جس کو اب میں کاٹتا ہوں

کہا ،،،،،، سیراب رکھوں گا تجھے میں
مگر ’’میں‘‘ بانجھ ہوتا جا رہا ہوں

کہ اب تو دھوپ بھی جُھلسا رہی ہے
سہولت سے مجھے وہ
مات دیتا جا رہا ہے
زبردستی مری آنکھوں میں ’’اپنے‘‘
خواب بھرتا جا رہا ہے
دھواں ہے اسقدر زیادہ
مری پہچان مشکل ہوتی جاتی ہے

مسلسل ہی ’’نظرانداز‘‘ کرتا جا رہا ہے

مجھے ’’اُس نے‘‘
’’بلوچستان‘‘ سمجھا ہے

چلو کچھ دیر سو جائیں 

ہزاروں سال پہلے بھی خُدا
ڈھونڈا گیا تھا
یہ مندر اور مسجد سے بہت پہلے
اُسے دیکھا گیا تھا
فرشتوں میں تحائف اور سانسیں بانٹتا
پایا گیا تھا
خدا….. سوچا گیا تھا
کبھی انسانیت کے بھیس میں
اُترا تھا دھرتی پہ
کسی کی اشک شوئی کو
خدا دیکھا گیا تھا ! ۔
تو کیا یہ میری غلطی ہے
مُسلسل ایک مدت سے
میں اُس کو ڈھونڈتا ہوں
نہیں ملتا کہیں پر
جہاں پر دستکیں دی ہیں
کوئی روزن بنامِ دل نہیں کُھلتا…! ۔
عجب صحرا مزاجی ہے طبیعت میں
اور اپنے روبرو بھی
خواہشوں کا ایک دلدل ہے
جو پیچھے رہ گیا
’’وہ بھی‘‘ تو جنگل ہے
کہاں جائیں گے اس
’’اُلجھن‘‘ میں اب دل ہے ! ۔
خدا سب راستوں کا بھید رکھتا ہے
’’اُسے‘‘ ’’یہ بھی‘‘ خبر ہے
جنگلوں میں شام کا منظر
بڑا دلسوز ہوتا ہے
پرندے بین کرتے ہیں گئی رُت پہ
یہ سائے بڑھنے لگتے ہیں
بلائیں ساتھ لاتے ہیں
کوئی وحشت برابر ساتھ چلتی ہے
یہ پراسرار منظر، رات بھر
آنکھوں میں جلتے ہیں ! ۔
چلو کچھ دیر سو جائیں
سحر ہو گی تو اُسکو
پھر سے ….. ڈھونڈیں گے

یقیناً مل ہی جائے گا …..!!!۔

عقدہ کھلتا نہیں

کیا کریں گے بھلا، ایسے موسم کو
’’جس میں‘‘ کوئی پھول کِھلتا نہیں
یہ عجب رسم ہے سبز ہوتے نہیں
وقت ٹہرے بھی تو
درد رُکتا نہیں
دل سنبھلتا نہیں
’’وہ‘‘ بھی ملتا نہیں
اب یہ عالم ہے
راہوں کو تکتے ہوئے دن گزرتا نہیں
بوجھ سا دل پہ ہے
کوئی سُنتا نہیں ’’ہم‘‘ سنائیں کسے
چاند ملتا نہیں
رات ،،،، کٹتی نہیں …..! ۔
بھید کُھلتا نہیں، پھول کِھلتا نہیں
کوئی تدبیر ہے تو بتا
دل دھڑکتا نہیں
کیا کریں گے بھلا، ایسے موسم کو
’’جس میں‘‘ ’’ہمیں‘‘ ٹھیک سے
سانس ملتا نہیں
عُقدہ کُھلتا نہیں …. !۔
سب توازُن میں ہے
اور بھی اَن گِنت ہیں، مسائل یہاں
بات سیدھی سی ہے
باٹ مرضی مطابق ہوں تو
سب توازُن میں ہے
(تم کبھی)
سَر کے بَل، دیکھنا آسماں
سچ میں بادل نکلتے ہیں پَیروں تلے
یا کہ اوندھا پڑا ہے جہاں
ٹوٹتے، جُڑتے، بنتے، بگڑتے ہوئے
رنگ، رشتے، بدلتے ہوئے
فرصتیں کب، میسّر، مگر
اک ستارے پہ رک کر کبھی
دیر تک چاند کو دیکھنا
خاک بن کر بکھرنا کبھی ! ۔
تم کبھی اس طرح
چُپکے، چُپکے اُترنا
مِرے خواب میں
کوئی آہٹ نہ ہو
تو یہ ممکن ہے کیا
رنگ آنکھوں میں بکھرے ہوں اور
لڑکھڑاہٹ نہ ہو
دھیان یہ بھی رہے
خواب کے بارے میں
نیند کو کچھ خبر بھی نہ ہو ! ۔
رات آئی ہے فصلِ خزاں
مانگنا اپنے پیاروں کی خیر
اَبر پاروں کی خیر
اور شراروں کی خیر
آج الگ ڈھنگ سے، دیکھنا آسماں ……!!! ۔

 

ختم ہوتی نہیں کربلا 

خواہشوں کو وہیں رکھ کے آئے ہیں ہم
دل ہے بازار میں
زندگی ہاتھ باندھے ہوئے ہے کھڑی
تیرے دربار میں
تھک گئے ہیں مگر
خیر ہو تیرے مقتل کی صبر آزما
ہم بھی تیار ہیں
سر سرِ دار ہیں ! ۔
کیسے جوبن میں ہیں
آنکھ کی مستیاں
دھول میں رقص کرتے ہوئے
حیرت بھری داستاں،،، الاماں
رنگ ہی رنگ ہے
حالتِ جنگ ہے
نوکِ نیزہ پے ہیں مسکراتے ہوئے
کر رہے ہیں بیاں
تیری حمد و ثنا
معرکہ، حق و باطل کا ہے
اپنے اندر بپا ہے وہی کربلا
صبرِ والے ہیں ہم
آخری سانس تک
کہتے ہی جائیں گے
ایک پل کو بھی رُکتا نہیں سلسلہ
’’ ختم ہوتی نہیں کربلا ‘‘

زمستاں 

ہمارے ہاں زمستاں کی ہوائیں چل رہی ہیں
رگوں میں برف جمتی ہے
تمہارے آنگنوں میں
دھوپ نکلی ہے
سُنا ہے ، دھوپ نکلی ہے ! ۔

ہمارے گرد کیسی کہر کی چادر تنی ہے
یہاں موسم بدلتا ہی نہیں ہے
شجر خاموش جیسے
برف کی فرغل لیے
مجذوب بیٹھے ہوں
پرندے لاپتہ، ویران رستے
فقط یخ بستگی ہے ’’جو‘‘
لہو کو منجمد کرتی ، اترتی جا رہی ہے ! ۔

کوئی رستہ، کوئی کھڑکی
نہیں کھلتی تمہاری سمت
جس سے دھوپ آ جائے
یہ شاخیں سبز ہوں اور
رنگ میں کچھ روپ آ جائے
کہ جس سے زمہر یرِ جسم و جاں پگھلے
رگ و پے میں جما لاوا کسی صورت کو نکلے

یہ کیسا کہر ہے ہٹتا نہیں ہے
ہے میرے چارسو اور دور تک چھٹتا نہیں یہ
یہاں منظر بدلتا ہی نہیں ہے
تمھارے آنگنوں میں دھوپ نکلی ہے
اور ’’میں‘‘ یخ بستہ اس
’’فجرِ زمستاں‘‘ میں
فنا کا رزق بنتا جا رہا ہوں !!!۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے