الاماں، الحذر، المدد

الا ماں
تازیانے گنہ گا ر ہاتھوں میں ہیں
بے گناہوں کی خیر
وہ جو قاضی عدالت گواہوں ، سند
علم و دانش ، قلم اور تحریر سے منسلک
اک روایت کی تہذیب تھی
وہ کہیں کھوگئی
اک سفر ایک لمبا سفر رک گیا
کس لیے رک گیا؟

الحذر
مبتلائے جنوں
یہ درندہ صفت
وحشی جلاد
لڑتے ہوئے
تازیانے لیے
تازیانوں کی زد میں تڑپتا بدن
خوں اگلتا بدن
کیسی کچلی ہوئی خواہشوں
وحشیانہ ہوس کاریوں کا نشانہ بنا
کس جبلت کی تسکیں کا ساماں ہوا
المدد المدداے خدا!

اب رفاقت کے لیے وقت نہیں

خواب میں چلنے کی عادت تھی مجھے
ہم سفرکون ہے دیکھا ہی نہیں
کس جگہ دھوپ سے گزری ہوں
کہاں چھاؤں ملی
کس جگہ آئے شجر، پھول نچھاور کرنے
کیسے کانٹوں سے بچایا دامن
کس جگہ خاک اڑی، دھول اَٹی بالوں میں
کبھی اس بات کو جانا ہی نہیں
شام سے پہلے پلٹنا تھا کہاں جانا تھا
کس جگہ ملنا،بچھڑنا تھا کہاں
راستہ ختم کہاں ہونا تھا
کس رفاقت کو امرکرناتھا
کیا کھونا تھا
کبھی سوچاہی ہیں!

لفظوں کا قرض

ہونٹ کے زاویوں میں
بھٹکتے ہوئے تم نے کتنے کو نے دیکھے
بے معنی آہٹوں
بے شناخت چہروں میں
تم نے۔۔۔ کیا کچھ ڈھونڈا؟
تم کہاں کہاں گئیں،
انسانی عظمتوں کا جھوٹا لبادہ اوڑھ کر
مگر اس پر اپنے ہی لفظوں سے پیوند
لگاتی رہیں
حواس کے یہ شعبدے تمہارے سامنے ہیں
تم نے زمینی کھیلوں کو دیکھا کہ
شطرنج کی بساط پرگھوڑ اڈھائی قدم چلا
اور زمین کا رنگ بدل گیا
بدلے ہوئے رنگوں میں بھٹکتے ہوئے
کیاتم بغیر سیاہی کے سفیدی کو ڈھونڈ سکیں
کبھی اجالوں نے اندھیرے کو گلے لگالیا
اورتم نے چکا چوند سے گھبرا کر آنکھیں موند لیں
کیا یہ بھی حواس کا کوئی شعبدہ تھا؟
جب بھی تم نے چاہا لفظ کو بے معنی کردیا
اور جب چاہا خاموشی میں آواز ڈھونڈ لی
تمہارا یہ سفر کس کے لیے تھا؟
کہہ لو۔۔۔ اپنے لیے

لیکن! یہ سب شریکِ سفر
تمہارے لفظ کیوں ان کی گواہی بن گئے ہیں
ہاں تم ان کی مقروض ہو
جتنے پیوندان سے لیے ہیں انہیں دے کر
آج بے لباس ہوجاؤ

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے