واپسی 

میں لوٹ آ ئی
بے طرح سکون کی ان وادیوں سے
کہ۔جہاں خیال بھی گزرتا تو
قدموں کی دھمک
دل کے نہاں خانوں میں گونج اٹھتی
کہ خودروئی کی مہک
ہوا کی سرسراہٹ کی لے پر
محو رقص رہتی
حسین،پرسکون لمحات کی مے پئے
میں یوں جھومی کہ جیسے
کوئی نوخیز ابھی نیا نیا
مبتلائے محبت ہو چلا ہو
یوں کہ جیسے میرے وجود میں منجمد درد
رگ جان سے سرکتا
نم حسین۔وادیوں میں کھو گیا ہو
سکون کی آ خری حدیں پار کر کے
میں۔لوٹی ہوں واپس تو ایسا کہ
اپنے اندر کے
بکھرے ٹکڑے ان وادیوں کے حوالے
میں کر آ ئی
شینا بولتے ان لبوں پر
میں۔اپنی مسکان کے چند ذرے چھوڑ آ ئی!۔

تخیل

تم۔میرے پاس جب بھی آ کر بیٹھتے ہو
تیرے ان کہے لفظوں کی گونج
میرے کانوں میں۔گونجنے لگتی ہے
اور جب بولنے لگتے ہوتو
میرا پورا بدن گدگدا اٹھتا ہے
میں شام تا سحر تیری
سانسوں کے حصار میں رہتی ہوں
آ نکھیں کھولنے سے ڈر لگتا ہے
کہیں ایسا نا ہو
میری پلکیں تیری پلکوں میں الجھ نہ جائیں۔
ہاں
تم۔اتنے ہی قریب ہو میرے!۔

نظم

کاش!۔
میں تیری دیوی ہوتی
یا تم۔میرے دیوتا ہوتے
میں آ رتھی میں۔پھول سجائے
تیرا طواف کرتی
یوں بھی ہوتا کبھی
مورتی بن کر تیرے سامنے کھڑی ہو جاتی
اور تم میری پوجا کرتے
کاش میں۔تیری دیوی ہوتی!۔
کاش تم۔میرے دیوتا ہوتے!!۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے