خواب

دھمم دھمام
ڈھول پر
وہ دلنواز موگری برس پڑی
تو خلق کے ہجوم ناچنے لگے
فضائیں ناچنے لگیں
ہوائیں ناچنے لگیں
وہ جوش ، وہ خروش رونما ہوا
کہ عرش سے زمیں کو جھانکتے ہوئے
نجوم ناچنے لگے
مگر یہ خواب دیر تک چلا نہیں
(سراب جوئے آب میں ڈھلا نہیں)
کہ دفعتاً نگاہ میں
وہ دلنواز موگری چمک اٹھی
لبادہِ سیاہ میں کٹارسی چمک اٹھی
یہ دیکھتے ہی رقص کے مقام سے
ہجومِ خلق چھٹ گیا
دھمم دھمام کی الاپ رک گئی
تڑاخ۔۔۔
ڈھول پھٹ گیا!!!۔

نروان

اگر ہماری طرح تمہیں بھی
حیات کی بے نمورتوں کے
ملال سہنے پڑیں تو شاید
تمہیں بھی وہ روشنی عطا ہو
کہ جس کی تاثیر سے لہو میں
سکون کے دیپ جگمگا ئیں
وجود میں ڈوبتے ابھرتے
سراب آثار منظروں کے
وبال سہنے پڑیں تو شاید
وہ سُکھ ، جو آسودگی عطا ہو
کہ جس سے دل کے اُجاڑ بن میں
بہار کے رنگ لہلہائیں
جہانِ تاریک کے سفر میں
ستارہ و کہکشاں کے چھبتے
سوال سہنے پڑیں تو شاید
وہ فہم ، وہ آگہی عطا ہو
کہ جس سے شاخِ نہال غم پر
نشاط کے پھول مسکرائیں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے