سال 2015 کی آخری نظم

شام کو مرہم ہولینے دو
زخم پرانے روح میں اترے چیخ رہے ہیں
تم ہی جانو
میرے دکھ تو سانس سے لے کر تارے چاند یہ سارے سورج
مٹی خوشبو اور لہو ہیں
میرے دکھ کو سمجھو تو
میری چپ کو سہنا ہوگا

سب ضمیر۔۔۔گویاچپ
(انسانی جان کی ارزانی پر تماشائی میں ہم بھی شامل ہیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حادثہ جو ہوتا ہے
بم کوئی جو پھٹتا ہے
جب کبھی کوئی قاتل
ماں کے کلیجے کو
چیر چیر جاتا ہے
لوگ دوڑ آتے ہیں
بِھیڑ یہ بناتے ہیں
دائرہ بناتے ہیں
خون جب بھی گرتا ہے
بیچ راہ کسی کو جب
قتل کوئی کرتا ہے
دائرہ بناتے لوگ
سونگھتے ہیں جیسے یہ
ایک اک لہو کی بوند
ایک ایک سانسوں کو
جیسے یہ نچھڑتے ہیں
زخم کوٹٹولے تو
جیب تک ادھڑتے ہیں
ایک ایک صورت کو دیکھتے یہ جاتے ہیں
ویڈیو بناتے ہیں
رنگ نسل کپڑوں کو نام دیتے جاتے ہیں
ہاں مگر۔۔۔ لہو کا رنگ
دیکھنا نہیں چاہتے
دائرہ بڑھاتے ہیں
اور پھیل جاتے ہیں
شور اتنا زیادہ ہے
کیا کوئی تماشا ہے
روح پر لہو کھرچن
کیا کبھی یہ اترے گی
سب ضمیر۔۔۔گویا چُپ۔۔۔
اک سکوت۔۔۔ لعنت ہو
آدمی کراہتا ہے
وقت میں کراہت ہو

 

یہاں اک باغ تھا 

سنہری تتلی
کہاں گئی ہے
یہاں جو پھولوں کا اک باغ تھا وہ
کہاں گیا ہے
میں سات وادیوں سے ہوکے آیا ہوں
مجھے بتاؤ
کوئی کہانی
سنہری تتلی
کہاں گئی ہے
میں پریوں کی اچھی اچھی وہ ساری
کہانی سنا تو دوں گا
مگر وہ میری تتلی سنہری تتلی
وہ پھولوں کا باغ
کہانی وہ بچپن جوانی کے قصے
خموشی سے گزرتے وہ لمحے یہیں کے
مجھے اک گیت سننا ہے
سنانے ہیں اپنے بھی شعر
مگر سنہری تھی تتلی
یہاں تھا وہ باغ
کھلی تھی کلی تو خوشبو بھی پھیلی
کہ یادوں میں نقش ساری وہ باتیں
کہ جن کو یاد رکھنا پڑا
یہ کہنا پڑا
وہی ہے خسارہ
وہی ہے حاصل

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے