کوہِ ندا کا پرندہ

تم نے سچ ہی کہا
"وقت مرہم نہیں”
اور اعداد تو اژدھے ہیں
جو گِن گِن کے پل پل
نگلتے ہیں سانسیں ہماری
ہر اک رشتہ چن چن کے کھاتے ہیں
جس کا پتا بھی نہیں ہم کوچلتا
ہمیں اپنے پیاروں کی چوسی ہوئی ہڈیاں
ایک مدت گزرنے کے بعد
اپنے خوابوں کے ملبے سے ملتی ہیں
تب شہر اٹھتا ہے کروٹ بدل کر
گھنی نیند سے مسکراتا ہوا
جیسے کوئی تعلق نہ ہو اس کا ہم سے
اگرچہ اسے یہ پتا ہے
کہ ہم ہی نے اس کو بسایا تھا
اک آرزو کو سجایا تھا
اس کی چھلکتی ہوئی کالی آنکھوں میں
ہم جگمگاتے ہوئے ایسے تارے تھے
جن کو خبر تھی کہ ہم راکھ ہو جائیں گے ایک دن
پھر بھی خوش خوش سلگتے، چمکتے رہے تھے ہمیشہ
کہ روشن رہے شہر کی آرزو!

کتنی معصومیت سے کہا،تم نے
مرہم نہیں، وقت مرہم نہیں
تم نے پنجے نہیں اس کے دیکھے
ٹپکتا ہے جن سے لہو
آدمیت کی اْس آرزو کا
جسے ماں سلاتی نہیں تھی کبھی گیلے بستر پہ،
خود اْس طرف لیٹ جاتی
جہاں ٹھنڈ کھاتی تھی اْس کا کلیجا
مگر رات آنکھوں میں یوں کاٹ لیتی تھی وہ
جیسے سپنا سہانا کوئی سانس روکے ہوئے دیکھتا ہو
کہ کروٹ بدلنے سے منظر بکھر جائے گا

میرا غم ہے بڑا،
وقت سے ،
وقت کے غم سے،
تم سے بڑا
شاعرہ ہو، مگر ماں بھی ہو ،تم کو معلوم ہے
تم بکھرنے نہیں دو گی منظرکبھی

اور میں،
جو کہ محروم ہوں،
ماں کے اعزاز سے
دیکھتا ہوں اکیلا کھڑا
غم کے کوہِ ندا سے
کہ یہ زندگی،
اک درندے کے پنجوں میں آیا ہوا
وہ پرندہ ہے جس کو
کسی اورمرہم نہیں
موت کی آرزو ہے،
فقط موت کی
موت مرہم ہے
ہر زخم کا
(ثروت زہرا کے نام )

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے