ادھورا

وقت نے جب سے جنم لیا ہے
تب سے ہی سب کو لاحق ہے
لمحے گننے کی بیماری
ہر پل بس گھڑیال سواری
دوڑ دھوپ بھاگم بھاگی میں
خود سے نہ ملنے کی فرصت
نہ ہی ٹہراؤ سے سنگت
نہ خاموشی سننے کی مہلت
لفظوں کے اوسان خطا سے
بے چینی، باتوں میں عجلت
سنجیدہ چہروں پہ طے ہے
موزوں پل ہنسنے کی ساعت
سمے سوئی نے سب کو دی ہے
وقفوں میں جینے کی عادت

جنگل میں جب بھی جاکر میں
ٹکڑوں میں یہ بکھری بُدھی
چن چن یکجا کرکے دیکھوں
آدھے پن کی انگلی سے پھر
روح کو اک چونٹی دوں سوچوں
وقت سے پہلے کا انساں بھی
کتنا پورا ہوتا ہوگا

ساگرنج

جگ سے جدا نہیں رہتا
ساحل پہ پیروں کے نشاں
لہروں سے چھو لیتا ہے
ایڑیوں کے مغموم لبوں کے چیختے لفظ
پپڑیوں سے اٹے ہوتے ہیں
انگلیاں چغلیاں بُڑبڑاتی رہتی ہیں
سب کچھ چپ سادھ غور سے سنتا ہے
اور پھر گہرے رنج میں ڈوب جاتا ہے سمندر

ہیپی نیو ایئر

سال صرف نمبر ہے
اس کے بدل جانے پہ کیا مبارکیں دینا
فکرِنو تو اب بھی ہے
جہل جیل کی باندی
پابجولاں پھرتی ہے
مصنوعی سی آزادی
گنگدام ہے عوام
ہم غلام کے غلام
کیا خوشی منائیں گے
ہو فریب کا زہر جب سماج کی رگ میں
زندگی گزاریں گے سب سراب کی زد میں
مقتدر کی عادت ہے زیردست کے حق پہ
مفلسی کی سوئی سے کربِ مسلسل دینا
قیدیوں پہ واجب ہے جب تلک نہیں ٹوٹیں
جیل کی فصیلوں پہ ضربِ مسلسل دینا
نارسا کو جیون تک جب رسائی مل جائے
غمزدہ نگاہوں کی مردنی بدل جائے
جبر جب نہ حاوی ہو
زندگی مساوی ہو
تب ہی ایک دوجے کو
مسکرا کے یہ کہنا
سال نو مبارک ہو

غم گشان

کبھی شال کے یخ زمستان میں
برفیلی چادر اوڑھے ہوئے
ساکت چپ چاپ پہاڑوں کو
من آ نکھوں سے دیکھو تو
احساس جگے گا
کہ جیسے دھرتی ماں نے اپنے
لہو لہان بدن کے جلتے زخموں پر
جمے ہوئے اشکوں کا مرہم لیپا ہے

ابھی انسان نے جینا نہیں سیکھا

پیالہ پریم کا پینا نہیں سیکھا
ابھی انسان نے جینا نہیں سیکھا

عقائد اوڑھنے کا فن تو سیکھا ہے
بتوں کو توڑنے کا فن تو سیکھا ہے
گماں میں ڈولنے کا فن تو سیکھا ہے
حقیقت چھوڑنے کا فن تو سیکھا ہے
بناوٹ اوڑھنے کا فن بھی سیکھا ہے
خرد جھنجھوڑنے کا فن نہیں سیکھا
دلوں کو جوڑنے کا فن نہیں سیکھا
دیواریں توڑنے کا فن نہیں سیکھا
یہ خطرہ مولنے کا فن نہیں سیکھا
سدا سچ بولنے کا فن نہیں سیکھا
محبت مار دے کینہ نہیں سیکھا
ابھی انسان نے جینا نہیں سیکھا

سمندر چیرنے والے تو کافی ہیں
ہوا میں تیرنے والے تو کافی ہیں
خلا میں ٹہرنے والے تو کافی ہیں
ستارے کھوجنے والے تو کافی ہیں
فضائیں بوجھنے والے بھی کافی ہیں
اسیری روندھنے والے بہت کم ہیں
غریبی نوچنے والے بہت کم ہیں
قہر کو ٹوکنے والے بہت کم ہیں
رعونت روکنے والے بہت کم ہیں
کدورت بھینچنے والے بہت کم ہیں
محبت سینچنے والے بہت کم ہیں

فہم ہو پیار سے بینا نہیں سیکھا
ابھی انسان نے جینا نہیں سیکھا

ملیں گے ہر طرف آزار کے ماہر
فنونِ جنگ کے ہتھیار کے ماہر
علومِ زندکش یلغار کے ماہر
تباہ کن آلہ و اوزار کے ماہر
دھرم ایمان کے بیوپار کے ماہر
مگر ملتے نہیں ایثار کے ماہر
مساوی زیست پر ا صرار کے ماہر
نظامِ عصبیت پہ وار کے ماہر
فروغِ فرق سے انکار کے ماہر
دوامِ امن پر اقرار کے ماہر
بقائے باہمی و پیار کے ماہر
خرد نے روح کا زینہ نہیں سیکھا
ابھی انسان نے جینا نہیں سیکھا
پیالہ پریم کا پینا نہیں سیکھا
ابھی انسان نے جینا نہیں سیکھا

حوصلہ

اے خواب کش
مِری آنکھیں تِری ضربوں سے ٹُوٹی ہیں
اِن میں نیندوں کے مَلبے تلے
میرے خواب دفن ہیں
جو ابھی اَدھ مَرے ہیں
دید اُمید کی کُھلی ہے مگر
کہ جس کے نور سے اگر کبھی
مِرے خواب جی اُٹھے تو
تیری موت اَٹل ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے