2

اگر ہم سرکاری ’’حلقوں‘‘ کو نظر انداز کردیں تب بھی سیکنڈ ایمپائر کے بعض فرانسیسی ادیب ہیں جنہوں نے ترقی پسندانہ نقطہ نظر کی بنیاد پر آرٹ برائے آرٹ کے نظریئے کو مسترد کردیا ۔مثال کے طور پر الیگزینڈر ڈوماس کی فلز کوؔ لے لیجئے جس میں وہ قطعی طور پر کہتا ہے کہ ’’آرٹ برائے آرٹ ‘‘ کا لفظ کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ اس کے ڈرامے’’ لی فلزؔ نیچرل ‘‘اور’’لی پیرے ‘‘بیشتر مخصوص سماجی مسائل کو آگے بڑھا رہے ہیں ۔وہ سمجھتا تھا کہ ’’پرانے سماج ‘‘کو جو اس کے اپنے لفاظ میں ’’ہر پہلو سے بیٹھاجارہا ہے ‘‘ اپنی تحریروں سے سہارا دینا ضروری ہے ۔
الفریڈڈیؔ مسیٹ کی جو اسی وقت مرا تھا1837 کی ادبی نگارشات پر تبصرہ کرتے ہوئے لیمرٹائنؔ نے افسوس کیا کہ ان سے مذہبی سماجی سیاسی یا محب الوطنی کے جذبات کا کسی طرح کا اظہار نہیں ہوتا اور اس نے اپنے ہم عصر شاعروں کے حسنِ کلام، قافیہ بندی اور بحروں کے فقدان پر اظہار افسوس کیا ہے۔ میں سب سے آخر میں محض فارم کے لحاظ سے کم پایہ کے میکسم ڈوکیمپ کا حوالہ دوں گا جس نے کہا تھا :
’’فارم ایک خوبصورت شے ہے بشر طیکہ اس کے اندر خیال بھی موجود ہو۔ اس حسین پیشانی سے کیا حاصل جس میں دماغ ہی نہ ہو‘‘۔
اس نے رومانوی نقاشوں کے سرغنہ پر یہ کہہ کر چوٹ کی:’’بالکل اُن ادیبوں کی طرح جو آرٹ برائے آرٹ کے ماننے والے ہیں مسٹرڈ یلاکرولکس نے ’’رنگ برائے رنگ‘‘ کا نظریہ ایجاد کیا ہے۔ ان کے حساب سے رنگوں کی آمیزش کے مقابلے میں انسانی نسل اور تاریخ کی کوئی حیثیت نہیں‘‘ ۔اس ادیب کی رائے یہ تھی کہ ’’آرٹ برائے آرٹ ‘‘‘ کا نظریہ تسلیم کرنے والوں کا گروہ اپنی زندگی پوری کرچکا ہے ۔
لامارٹائنؔ اور میکسمؔ ڈوکیمپ کو الیگزنڈر ڈوماس کی فلز ؔ سے زیادہ تخریبی رجحانات کا خالق نہیں قرار دیا جاسکتا ۔انہوں نے آرٹ برائے آرٹ کے نظریئے کواس لیے مسترد نہیں کیا کہ وہ چاہتے تھے کہ بورژوا نظام کی جگہ نئے سماجی نظام کو دی جائے بلکہ وہ چاہتے تھے کہ بورژوائی رشتوں کو سہارا دیں جو پرولتاریہ کی تحریک آزادی کے نتیجے میں ہل گئے تھے۔ اس لحاظ سے وہ رومانیوں ،پارنا سیوں اور قدیم حقیقت پسندوں سے مختلف تھے صرف اس لیے کہ بورژوا نظام زندگی سے سمجھوتہ کرنا جائز سمجھتے تھے ۔وہ قدامت پسند قنوطیے تھے اور دوسرے قدامت پسند رجائی۔
اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آرٹ کا افادیت پسندانہ نقطہ نظر قدامت پسند اور انقلاب پسند ہر دو اقسام کے ذہنوں میں سما سکتا ہے۔ اس رجحان کو قبول کرنے کے لیے پہلے سے مان لینا چاہیے کہ صرف ایک ہی بنیادی شرط مخصوص سماجی نظام یا سماجی نقطہ نظران دونوں میں سے کسی کی بھی گہری فعال وابستگی ہے ۔ یہ اس وقت ہوا میں اڑجاتا ہے جب ان دونوں میں سے کسی سے وابستگی باقی نہ رہے۔
اب ہم آرٹ کے متعلق ان دومتخالف نقطہ ہائے نظر کا یہ دیکھنے کے لیے لازماً جائزہ لیں گے کہ ان میں سے کونسا نظر ترقی کا باعث بن رہا ہے۔
سماجی زندگی اور سماجی خیالات کے متعلق تمام سوالات کی طرح اس سوال کا جواب بھی بلاشرط نہیں دیا جاسکتا ۔ کیونکہ ہر بات کا انحصار مخصوص وقت کی صورت حال اور جگہ پر ہے ۔نکولس اوّل اور اس کے حاشیہ نشینوں کی بات یاد کیجئے ۔وہ پشکن، اسٹروسکی اور دوسرے آرٹسٹوں کو بدل کر اخلاقیات کا پیغمبر بنانا چاہتے تھے جیسا کہ پولیس کے حاکم اعلیٰ نے ظاہر کیا تھا ۔ہمیں فرض کر لینا چاہیے کہ وہ اپنی اس زبردست خواہش پوری کرنے میں کچھ وقت تک کے لیے کامیاب ہوگئے ہوں گے تو اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ ۔جواب اس سوال کا آسان ہے کہ انہوں نے آرٹ کو دسیوں سال کے لیے زوال پذیری کی طرف دھکیل دیا اور اس کی صداقت ،زور کلام اور کشش کو مدھم کردیا۔
پشکن کی نظم’’روس پر تہمت دھرنے والے ‘‘ کو اس کی بہترین تخلیقات میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔ اسٹرووسکی کی ’’ دوسروں کی مصیبت میں کام آنا‘‘ کو بادشاہ کا از راہِ کرم فرمائی’’مفید سبق‘‘ کہنا کچھ عجیب بات نہیں ۔تاہم اس ڈرامہ میں اسٹرووسکی نے اس خیال کی جانب دو ایک قدم رکھے ہیں جسے بینکنڈروف ،شرنسکی اور اس طرزِ فکر کے دوسرے خواہشمند تھے جوآرٹ کی افادیت کے قائل تھے۔
آئیے ہم پھر تھیو فائل گوٹیئر ، تھیوڈو، ڈی مینوائل ، لی کاونٹے ڈی لیسلے ، بودلیئر، کنکورٹ برادان مختصریہ کہ فرانس کے رومانویوں ، پارنا سیوں اور پرانے حقیقت پسندوں کی طرف رُخ کریں جو سرمایہ دارانہ ماحول سے سمجھوتہ کے سکے کو سب پر فوقیت دیتے تھے۔ اس کا نتیجہ کیا برآمد ہوا؟۔
اس سوال کا جواب بھی آسانی سے دیا جاسکتا ہے اور یہ کہ رومانوی ، پارناسی اور ابتدائی دور کے حقیقت پسند فرانسیسی آرٹسٹ بہت نیچے گر گئے۔ ان کی تخلیقات کی جان اور سچائی نہایت کمزور ہوگئی اور کشش ختم ہوکر رہ گئی۔
آرٹ کے لحاظ سے کس کو افضلیت حاصل ہے ۔ فلو برٹ کی ’’ میڈم بویری کو،یا،اوگیرکی ’’گینڈرے ڈی مونشیر پوٹیر‘‘کو؟۔ یقیناًیہ پوچھنا ضروری ہے کیونکہ فرق محض علم وقابلیت کا نہیں۔ اوکیری کے ڈرامے کا سوقیانہ پن بورژوا اعتدال پسندی کے نزدیک قابلِ تقدس اور قابلِ قبول تھا اور اس لیے اس دوسرے طریقے کا مطالبہ کر رہا تھا جو فلوبرٹ کنکورٹ برادران اور دوسروں نے ذلت آمیز قرار دے کر اختیار نہیں کیا، اور مذکورہ اعتدال پسندی کی طرف سے پیٹھ پھیرلی۔ آخری بات یہ ہے کہ یہی وجہ تھی جس کے باعث ایک ادبی رجحان نے دوسرے ادیبوں کی تخلیقات کے مقابلے میں زیادہ قبولیت حاصل کی۔
اس سے کیا بات ثابت ہوتی ہے؟۔
اس سے ایک ایسا پوائنٹ ثابت ہوتا ہے جس سے گوٹیئر جیسے رومانوی متفق نہ تھے کہ کسی ادبی کارنامے کی حیثیت اس سے پہچانی جاتی ہے کہ اس میں ادیب نے کیا کہا ہے ۔گوٹیئر صرف یہی نہیں کہتا تھا کہ نظم کچھ ثابت نہیں کرتی ،وہ کچھ ثابت کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتی ۔وہ اسے تسلیم نہ کرتا تھا کہ شاعری (وہ نظم ہوکہ غزل یا گیت) کا حُسن اس کی موسیقیت اور اوزاں شعری پر مبنی ہوتا ہے جو مہلک غلطی تھی ۔ اس کے برعکس شاعرانہ اور فنکار تخلیقات کچھ نہ کچھ کہا کرتی ہیں اس لیے کہ وہ کسی نہ کسی بات کا اظہار کرتی ہیں۔ البتہ ان کے ’’کہنے‘‘ کے اپنے اپنے طریقے اور انداز ہوتے ہیں۔ آرٹسٹ اپنا خیال کسی تصورتصویر یا مرقع کی صورت میں پیش کرتا ہے ۔ اشتہار والا یا مقرر اپنے خیال منطقی نتیجوں کی صورت میں پیش کرتا ہے۔ اگر ایک شاعر یا فنکار اپنے خیال کو تصور یا مرقع کی صورت میں پیش کرنے کے بجائے منطقی دلیلوں سے اپنا مقصد ظاہر کرے یا اسے ظاہر کرنے کے لیے کوئی تصور ، تصویر یا مرقع گھڑے تو وہ آرٹسٹ نہیں پروپیگنڈسٹ یا اشتہار باز ہے۔ چاہے وہ مضامین نہ لکھتا ہو بلکہ کہانیاں اور ڈرامے لکھتا ہو۔ یہ بات گو بالکل درست ہے مگر اس سے یہ نتیجہ نہ نکال لینا چاہیے کہ آرٹ کی تخلیقات میں خیالات اور نظریات کو کوئی اہمیت حاصل نہیں۔ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ وہ آرٹ کی تخلیقات ہی نہیں جس میں خیال کو جگہ نہ دی جائے ۔وہ تخلیقات بھی جن کے مصنف اسلوب پر انحصار کرتے ہیں اور مقصد سے سروکار نہیں رکھتے وہ کسی نہ کسی طرح کسی خیال کا اظہار ضرور کرتی ہیں۔ گوٹیئر جو خیال ، مستردکرنے کا مدعی ہے یہ کہتا نظر آچکا ہے کہ ’’حقیقی رافیل یا برہنہ حسینہ کو دیکھنے کے لطفکے بدلے میں بطور فرانسیسی شہری اپنے سیاسی حقوق ترک کرنے کو تیار ہوں۔ ‘‘ ہر ایک بات دوسری سے جڑی ہوئی ہے۔ اس کا فارم پر اتنا زور دینا اس کی سیاسی وسماجی لا تعلقیت کی پیداوار تھا۔ وہ تخلیقات جس کے مصنف صرف فارم پر تکیہ رکھتے ہیں۔ جیسا میں پہلے بتا چکا ہوں ہمیشہ اپنے مصنفوں کی اپنے سماجی ماحول سے مایوس کن بے تعلقی کا اظہار کرتی ہیں اور اس صورت حال میں یہی ایک خیال سب میں مشترک ہوتا ہے جس کا وہ ایک دوسرے سے جدا گانہ انداز میں اظہار کرتے ہیں ۔لیکن جب ایسا کوئی ادبی کام نہیں جو خیال یا نظریہ سے بالکل خالی ہو تو ہر خیال اور نظرئیے کابھی ہر ادبی کام میں اظہار نہیں ہوسکتا۔ رسکن اس بات کو اس طرح کہہ چکا ہے کہ ’’دوشیرہ اپنی گم گشتہ محبت کے غم کو گاکر ظاہر کرسکتی ہے لیکن کنجوس اپنی گم شدہ دولت کے غم کو گاکر ظاہر نہیں کرسکتا۔ ‘‘ اس نے درست بات کہی ہے اور یہ درست نتیجہ نکالا ہے کہ ’’کسی تخلیق کی خوبی کو اس کے ان بلند پایہ احساسات کی بنیاد پر طے کیا جائے گا جو وہ ظاہر کرتی ہے‘‘۔ کسی بھی اس احساس کا جو تمہارے ذہن پر چھپایا ہوا ہے احترام ملحوظ رکھ کر اپنے آپ سے پوچھو :کیا دولتِ گم گشتہ کا مالک اپنے ، غم کو شاندار طریقے اور بھر پور نغمگی سے گاکر ظاہر کرسکتا ہے؟ ۔وہ نہیں گا سکے گایا مہمل اور مضحکہ خیزی سے گائے گا۔یہ بنیادی بات ہے ‘‘۔ رسکن کا یہ قول سونی صدصحیح ہے۔ اس کے سوائے اور کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ اور کسی آرٹ کے کام میں جس قدر بلند خیالا ت کا اظہار ہوگا آرٹ کی ویسی ہی دوسری خصوصیات ان کو اور ابھارنے کا کام دیں گی۔ ایک کنجوس اپنی گم شدہ دولت کے غم کو کیوں نہیں گاسکتا ؟۔سیدھی بات ہے کہ اگر وہ گائے گا تو کسی کو متاثر نہیں کرسکے گا۔
جنگ وجدل کے گیتوں کے متعلق مجھ سے سوال کیا جاسکتا ہے میرا جواب یہ ہے کہ اگر جنگی گیت دشمن کے خلاف نفرت کا اظہار کرتے ہوئے ساتھ کے ساتھ جانبازوں کی جرات بڑھاتے اور ان میں وطن اور اپنی قوم ے لیے جان قربان کرنے کا ولولہ پیدا کرتے ہیں تو وہ انسانوں کے مابین قبیلہ ، گروہ ، قوم کے لحاظ سے ذریعہ رسل ورسائل بن جاتے ہیں۔ جس کی وسعت تہذیب انسانی یا انسانوں کے خاص حصے کی تہذیبی سطح کے لحاظ سے متعین کی جاتی ہے۔
ترگنیف نے جو افادی آرٹ کے پرچار کوں کو بہت ناپسند کرتا تھا ایک دفعہ کہا کہ’’ ڈی ملو کی وینس‘‘ 1789کے اصولوں کے مقابلے میں زیادہ مسلمہ اور یقینی ہے۔ بات تو اس نے بہت ٹھیک کہی ہے لیکن اس سے ظاہر کیا ہوتا ہے؟ ۔یقیناًوہ نہیں جو ترگنیف چاہتا تھا ۔ اس دنیا میں بہت سے لوگ ہیں جن کے نزدیک 1789کے اصول صرف ’’غیر یقینی ‘‘ ہی نہیں ان کے علم تک میں نہیں ہیں ۔کسی ہوٹن ٹوٹ سے تو پوچھو جس کا یورپ کے سکول سے تعلق نہیں کہ اس کا ان اصولوں کے متعلق کیا خیال ہے تو پتہ لگے گا کہ اس نے یہ سنے تک نہیں ہیں ۔اور یہی صورت ڈی ملّوکی وینس کی ہے ۔ اگر وہ اسے کبھی دیکھے بھی تو یقینی طور پر اس کے متعلق اس کے دل میں ’’شبہات ‘‘ پیدا ہوں گے۔ انسانی حسن کے متعلق اس کا اپنا معیارہے ۔جس کے حلیے کا ذکر کرتے ہوئے اکثر بشر یات پر تحقیق کرنے والے اسے ہوٹن ٹوٹ کی وینس کہتے ہیں۔ڈی ملّوکی وینس سفید فام نسل کے ایک حصے کے لیے ’’ یقینی طور پر ‘‘ دلکش ہے اور سفید فام نسل کے اس حصے کے لیے 1789کے اصولوں سے زیادہ حقیقی اور یقینی ہے۔ مگر کیوں؟ محض اس لیے کہ یہ اصول سفید فام نسل کے نشوونما کے ایک خاص دور سے مطابقت رکھتے ہیں ۔اس دور سے جبکہ سرمایہ دار طبقے نے جاگیردار انہ اقتدار کے خلاف جدوجہد کر کے اس کی جگہ خود اقتدار سنبھالا ۔چنانچہ ڈی ملو کی وینس حسین عورت کا ایک تصور ہے جس کے ارتقاء کا کئی ادوار سے تعلق ہے مگر تمام ادوار سے نہیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے