انقلابی اصلاحات

یہ سارا وسیع علاقہ ،اور اچھی خاصی افرادی قوت یوسف عزیز مگسی جیسے انقلابی کے ہاتھ آ گئی تھی۔عرصہ ہواہم نے امریکی کمیونسٹ پارٹی کے مرحوم سربراہ ’’ گس ہال‘‘ کا ایک مضمون پڑھا تھا جس میں اُس نے لکھا تھا کہ ہم چھوٹے چھوٹے اور پسماندہ ممالک میں تو انقلاب کی حاصلات دیکھتے آئے ہیں مگر غورکرو اگر امریکہ جیسے سائنسی اور ترقی یافتہ ٹکنالوجی والے ملک میں انقلاب آجائے تو دنیا کہاں سے کہاں جائے گی۔ ساری سائنس و ٹکنالوجی حتی کہ سپر کمپیوٹروں کی ساری نعمتیں انسانیت کی خدمت میں وقف ہوجائیں۔
گس ہال کی آرزو کی تکمیل تو نہ ہوئی لیکن اسے اندازہ تک نہ تھا کی اس کی یہ خواہش سو برس قبل جھل مگسی نامی چھوٹی سی جگہ پر پہلے ہی کامیابی سے پوری ہو گئی تھی۔ پچھلی صدی کی تیسری دھائی میں امریکہ میں تو نہیں البتہ بلوچستان کی ایک ’’ سردار سٹیٹ‘‘ میں انقلاب آچکا تھا۔ اورسب کچھ انسانیت کے لیے وقف ہوچکا تھا!۔
اس زر خیزعلاقہ اور کثیر آبادی پر مشتمل رعیت کی مطلق نوابی ملنا چھوٹی بات نہ تھی ۔وسائل بھی موجود اور افرادی قوت بھی !!۔ یہ ایک ایسا موقع تھا جہاں پر نواب یوسف عزیز کے گفتار اور عمل کے مابین موجود کوئی معمولی تضاد بھی ابھر کر سامنے آسکتاتھا۔ مگسی صاحب نے اصلاحات کے بارے میں اپنے نظریات کوعملاً نافذ کرنے کا فیصلہ کیا۔کتنی رومانٹسزم تھی ان لوگوں میں، یوٹوپیا کی حدتک!۔
مادرِ وطن کے اس جلیل القدر فرزندنے جو پیغام اپنی قوم کو دیا، اُس سے اُنہوں نے شاندار ’’حیاتِ قومی‘‘ کا سبق سیکھا۔ قائداعظم کے لقب یافتہ (ہم 1930کی دہائی کے اولین سالوں کی بات کر رہے ہیں) اِس انقلابی کی دلی آرزو تھی کہ اقوام بلوچستان اپنے ماحول کو تہذیب وتمدن اور اصلاح وار تفاع سے بلند ولطیف بنانے میں کامیاب ہوں ۔ اس لیے اس نے اپنی قوم کو انسانیت وتمدن کی طرف رجوع کرنے کی خاطر تو عیظ و اصلاح کی روح اُن میں پُھونک کر شاہراہِ ترقی پر گامزن کرنے میں اپنی زندگی کے بہترین لمحے صرف کیے! (7)۔
ایک انقلابی کے لیے تالیاں بجوانا اہمیت نہیں رکھتا ۔انقلابی اقدامات کے لیے کسی پریس کانفرنس کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اور انقلابی کا کوئی کام’’ون مین شو‘‘ نہیں ہوتا ، نہ ہی ایک آدھ کا فائدہ پیشِ نظر ہوتا ہے۔ اُس کے لیے کام چھوٹا بڑا نہیں ہوتا ، کام تووہ بڑا ہوتا ہے جو عام انسان کے مفاد کا ہوتا ہے ۔ چنانچہ ایک معمولی ترینِ کام اس نے شروع کردیا۔ آئیے ہم چھوٹے سے ’’بڑے‘‘ کاموں کا تذکرہ کریں:

۔1۔ یوسفی دلّو

آل انڈیا بلوچ کانفرنس کے نائب چیئرمین، یوسف عزیزمگسی نے برسرِ اقتدار آکر ایک کام یہ کیا کہ علاقے میں جگہ جگہ پانی سے بھرے بڑے مٹکے رکھوا دیے۔
اُس بے آب ،اور ابلتے دوزخ علاقے میں عوام الناس کے لیے ٹھنڈے پانی کی سبیلیں یوں لگائیں کہ جگہ جگہ ٹھنڈا پانی میسر ہوا۔ اِن یوسفی مٹکوں کا نام پڑا:’’یوسفی دلّو‘‘۔ بھئی شہریوں کو پینے کا صاف پانی مہیا کرنا تو ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے ناں!!۔

۔2۔ سرائے
ایک اور کام یہ کیا کہ مسافروں کی رہائش اور خوراک کے لیے سرائے تعمیر کرنے شروع کردیے ۔

۔3۔ ترغیبات

اسی طرح یوسف ہی نے بلوچوں کے بہت کھلے ڈلے تھان جتنے لباس کی زبردست حوصلہ شکنی کی۔ اُسے دولت کا ضیاع قرار دیا ۔ اس نے خود ضرورت کے مطابق کم رقبے کا لباس متعارف کرایا۔ پھر خود ہی پگڑی کے بجائے ٹوپی پہن کر ایک اور طرح سے کفایت شعاری متعارف کرائی۔ وہ بیس گز کی پگڑی کو چا ر چھ گز تک لایا۔ ایک بار تو عید کی نماز پتلون میں پڑھی تاکہ بہت اصراف والے کھلے ڈلے لباس کے بجائے محض ستر پوشی اور موسمی قہر سے بچاؤ کی غرض سے لباس پہننے کا رواج عام کرسکے۔

۔4۔ منشیات پہ پابندی

ایک پیراگراف 1934کے اخبار ’’ینگ بلوچستان کا:۔
’’عرب کے زمانہِ جاہلیت کی یادتازہ کرنے والا جَہل نہ صرف جِہل بلکہ حقیقی معنوں میں جِہل کا مرکب تھا۔یہاں کے باشندے شراب، بھنگ افیون اور چرس جیسی نجس اور ناپاک منشیات کے سحر میں مبتلا تھے ۔ ان منشیات پر پابندی کے قانون نے ان کو تحت اثری تک پہنچنے سے پہلے جگا دیا۔ ۔ ۔۔قدرت کا اس سے بڑھ کر اُن پر اور کیا احسان ہوسکتا تھا کہ ان کو نواب یوسف علی خان جیسے مرد مجاہد کی قیادت نصیب ہوئی۔ اس نے ان تمام رسموں کو جن کے باعث قوم کی بنیادیں کھوکھلی ہوچکی تھیں، اس احتیاط کے ساتھ پیوندِ خاک کر دیا ہے کہ وہ قیامت تک سرنہ اٹھا سکیں‘‘۔
یعنی اُس نے اِن منشیات پر پابندی لگادی۔
محمد امین خان کھوسہ نے اپنی ایک تحریر میں مگسی صاحب کا ایک خط نقل کیا تھا :
’’ مالی حالت بہت کمزور ہے اور کام زیادہ۔ اس وقت ساٹھ طلبا ہمارے ہاں زیرِ تعلیم ہیں (جَہل سے جِہل کو رخصت ہونے کے لیے بہت اچھا الٹیمیٹم دیا گیا ہے۔ امین) ۔تمام مذموم رسومات جو پہلے تھیں پچانوے فیصدی مٹ گئی ہیں۔
’’ سب مگسی مقدموں نے یکجا بیٹھ کر اُن کو منسوخ کر دیا ہے ، شراب پینے والا علاقہ جَہل میں فیصد ی ایک بھی مسلمان نہیں ملے گا۔ اور بھنگ البتہ چار فیصدی اس وقت پی جارہی ہے، یہ حالات ہیں دعا کرو ! ۔‘‘۔8

۔5۔ سرداری پھوں پھاں ختم

’’نواب یوسف علی خان نے اپنے تازہ قائم کیے ہوئے قومی جرگہ سے ایک قانون نافذ کرانا چاہا۔ کہ قبیلہ مگسی کے معاملات میں سے سرداریت اور غیر سرداریت کومٹادینا چاہیے۔آئندہ مگسی کوڈ میں سے اس دفعہ کواڑایا جائے جو سرداری خاندان کی امتیازی حیثیت قائم کرتا ہے ۔ اور اس کی جگہ یہ دفع پاس کیا جائے کہ ہر آدمی بلاتفریقِ خاندان، قانون کے نظروں میں مساوی حیثیت رکھے گا۔
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
کے قانون کو صرف نمازوں تک محدود کرنا انصاف اور انسانیت کو قتل کرنا نہیں؟۔ اور جب خدا کے نزدیک بندہ اوربندہ نواز کا امتیاز نہیں تو پھر اس دنیائے کون وفنا میں یہ کفر آمیز امتیاز کیسا؟۔
سینکڑوں سالوں سے عوام کے ذہنوں میں یہ بات کندہ کردی گئی تھی کہ سردار خدا کا برگزیدہ اور چُنا ہوا آدمی ہوتا ہے ۔ اُس کے پاس کرامت ہوتی ہے ۔ اُسے یہ ساری عزت اور برتری خدا کی طرف سے ملی ہوئی ہے ۔ اس لیے اس کا احترام مذہبی طور پر بھی فرض ہے ۔
چنانچہ عوام سردار کے آنے پر تعظیماً اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اُس کے ساتھ چار پائی یا اونچائی پر نہیں بیٹھتے۔ بلند آواز اور بے تکلفی سے بات نہیں کرتے۔ اُس کے ساتھ کھانا نہیں کھاتے۔ اُس کی طرف پیٹھ نہیں کرتے ہیں۔ اس کے سامنے دروغ گوئی نہیں کرتے۔ جب کوئی قسم یاحلف والی گواہی ہوتی تو سردارکی قسم گویا سچائی کا آخری معیار ٹھہرتا۔وہ خدا سے دعا بھی سردار کے طفیل سے کرتے ہیں۔
خود نواب یوسف علی خان راوی ہے کہ اس انوکھے قانون کے پاس ہونے کی افواہیں جب چہار سمت جَہل میں پھیلیں تو ایک عجیب اضطراب کی کیفیت پیدا ہوگئی ۔ لوگ بے تجاشا دوڑے دوڑے اس انقلابی سردار کے پاس آئے کہ صاحب یہ کیا قیامت کی نشانی نظر آنے لگی کہ سردار کی برابری کرنے لگا؛ ایک معمولی آدمی؟۔
یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ ہم اپنے آقاؤں کی جگہوں میں پاؤں ڈالیں ۔ ہم غلام نمک خوار ،ہم خاک پر بیٹھنے والے آج اٹھ کر سردار کے ساتھ بیٹھ جائیں گے ؟۔(واقعی قیامت کی نشانی تھی یہ تو ، اُس زمانے میں)۔
امین کھوسو نے اِس قانون کے بارے میں لکھا:
’’میرے خیال میں بہت سے بوڑھے مرد اور بوڑھی عورتیں اس داڑھی صاف ،کھدرپوش سردار کی اس تحریک کا سن کر متحیر ہوگئی ہوں گی۔ اور ان کی آنکھوں سے آب جاری ہوگیا ہوگا۔کہ خدا معلوم آئندہ چل کر کون سی نئی بدعتیں جاری ہوں گی‘‘۔ (9)۔
صمد خان اچکزئی ایک بار (1933کے اواخر میں) یوسف عزیز کو بتائے بنا اُس کے علاقے گیا اور یوسف کی جاری کردہ معاشی سیاسی اور معاشرتی اصلاحات کا تنقیدی جائزہ لیا۔ اُس نے قبیلے کے بیچ مساوات جاری کرنے کے یوسفی اقدامات کا یوں تذکرہ کیا :
’’تمام بلوچ قبائل میں سردار کی اس قدر تعظیم کی جاتی ہے کہ ملاقات کے وقت وہ ان کے قدموں پر گرتے ہیں، اُن کے برابر کبھی نہیں بیٹھتے اور نہ ہی سردار ایسا پسند کرتے ہیں ۔ مگر میرے رفیق نے یہ بھی اُڑادیا تھا۔ وہ کسی شخص کو اپنے پاؤں پڑنے نہ دیتے تھے بلکہ مخلصی کے ساتھ منع کر کے بہت سمجھاتے تھے کہ میں بھی انسان ہوں تمہارے جیسا ہی ۔اور مجبور کر کے ہر ملاقاتی کو اپنے برابر کر سی پر بٹھا تے تھے۔ نیز یہ کہ جس طرح تمام اقوام بلوچ میں رسم ہے کہ قتل ہونے یا دیگر کوئی جرم واقع ہونے پر سردار اور اس کے قبیلے کا معاوضہ دیگر اقوام سے کئی گنا زیادہ ہوا کرتا تھا مگر اس مردِ مجاہد نے اس تفریق کو بھی رواج میں سے اڑا دیا بلکہ جو معاوضہ خود سردار کیلئے ہوگا وہی ہر فرد قوم کیلئے بھی ہوگا‘‘ ۔(10)۔

۔6۔ کیرتھر نہر

دریائے سندھ سے بنوائی جس سے مگسی کا علاقہ سیراب ہوا ،اور مفلوک الحال لوگوں کو اپنی زراعت کو ترقی دینے کا عظیم موقع میسر ہوا۔سارا خرچہ یوسف عزیز مگسی کا ۔ ہاں کام البتہ بلوچی مشترکہ محنت’’ھشر‘‘ کے ذریعے سارے قبیلے نے مل کر کیا۔ جب مفاد مشترک ہوتو محنت تو بھی مشترک ہو، انسانی اصول تو یہی ہے ۔ سو، محبوباؤں کو پکارتے ہوئے، گیت گاتے ہوئے ، ایک دوسرے کے ساتھ گھل مل کر، لطیفے گالیاں سن سنا کر قرنوں پیاسے صحرا کو سیراب کر دیا۔ انسان ‘تیرا اتحاد کچھ بھی کرسکتا ہے!!۔

۔7۔ بے زمین کوزمین

جس کے پاس زمین نہیں تھی اُسے سب سے بڑے جاگیردار کی زمینوں سے زمین دینے کا اعلان کیا ۔اورسب سے بڑا جاگیر دار تو خود وہی تھا۔اپنے خلاف زرعی اصلاحات ، وہ بھی سو برس قبل!!۔

۔-8 نیا شہر

مگسی صاحب نے ایک نئے شہر کی بنیاد ڈالی جس کا نام ،کوٹ یوسف علی خان رکھا۔یوسف مگسی اپنے علاقے کو مصر بنانا چاہتا تھا۔

۔-9 ڈسپنسری

غریب عوام کے علاج معالجے کے لیے ڈسپنسری قائم کی جس میں مفت دوائی ملتی تھی۔معالجوں کی تنخواہ اور ادویات کی مد میں اخراجات یوسف عزیز کے ذمے ہوا کرتے تھے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے