ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ اردو / ہندی گیتوں کے شوقین ہوں اور آپ نے کبھی مہدی حسن، محمد رفیع، مکیش، طلعت محمود ، مناڈے ، غلام علی اور نصرت فتح علی خان کو نہ سْنا ہو؟ ۔
ٹھیک ایسے ہی اگر کوئی بلوچی گیت سنگیت سے لگاؤ رکھتا ہے تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اس نے بلوچی کے جانے مانے گْلوکار /موسیقار استاد عبدالستار کو کبھی نہ سْنا ہو؟
استاد عبدالستار کے فن اور ان کی شخصیت پہ گفتگو تو کوئی استاد ہی کرسکتا ہے لیکن موسیقی کے ایک بھگت کے طور پہ یا کہہ لیجیے کہ ایک سامع کی حیثیت سے جومجموعی تاثر دل و دماغ میں آتا ہے اسے بیان کرنے کی کوشش ضرور کرسکتا ہوں۔
گنجائشِ بَحَر در سْبو ممکن نیست
الہ دانم کہ مثلِ اْو ممکن نیست

استاد عبدالستار کے اجداد کا تعلق بمپورایران سے تھا مگر استاد کی جنم بھومی لیاری کراچی بنی۔لیاری سماجی خدمات کے عظیم باب رکھتا ہے،جوش و جذبہ ،امید اور خواب رکھتا ہے،علم آگہی کے روشن چراغ رکھتا ہے۔ لیاری چنگ رکھتا ہے رباب رکھتا ہے۔ سچ میں دیکھا جائے تو یہ کوئی عام بات نہیں ہے۔ مشرق ،مغرب، شمال ،جنوب میں رہنے والا ،الگ الگ پسند ،الگ الگ عمر میں نظر آنے والا انسان ایک گیت پہ آکر سب کی پسند ایک ہو جاتی ہے۔

ما چکیں بلوچانی ما چکیں بلوچانی
کون جانتا تھا کہ لیاری کا یہ گوہرِ نایاب آنے والے وقتوں میں بلوچی زبان کے قومی سنگر کا درجہ حاصل کرلے گا:

۔*دل کنت انت پر یاد کاینت منا یاد

۔*در کپتوں پدا،

۔*پرچے نالے کپودر سبزیں

۔*ڈئیکو ڈنگراں ڈئیکو بیا

۔*بدے تو منا تنگے شراب

اور میرا نہایت پسندیدہ گانا
۔*چوں منا سوچوکیں جْشاں کئے بی

یہ اور ایسے کئی دیگر شاہکار ہیں جو استاد کے سینہِ فن پہ تمغوں کی طرح سجے ہوئے ہیں۔

جس طرح ‘‘رودکی ‘‘ کو جدید فارسی کاآدم الشعرا کہا گیا ہے اسی طرح استاد عبدالستار بلوچ کو جدید بلوچی موسیقی کا آدم المغنہ یعنی موسیقاروں کا جد کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
بلوچی موسیقی کے ارتقاء میں بلوچی موسیقی میں کلاسیکل کی اور پھر بلوچی فوک میوزک اور کلاسیکل میوزک کے امتزاج سے جدید بلوچی موسیقی کی ابتدا کرکے گویا جدت کے چراغوں کا ایک سلسلہ سا شروع کردیا جو آج تک جاری ہے۔
استاد جس زمانے میں موسیقی کی دنیا میں آئے اس وقت بلوچی موسیقی دو مختلف انداز دو مختلف رنگ لیے کھڑی تھی،ایک طرف بلوچی فوک موسیقار اور بلوچی موسیقی میں سروز اور تنمبورگ پر داستانیں سنانے والے فنکار تھے اور دوسری طرف کراچی کے شہری گلوکار تھے جو سندھی فوک اور کلاسیکل کے امتزاج سے مقامی ‘‘تْک بندوں ‘‘کے اشعار گایا کرتے تھے۔
استاد عبدالستار بلوچ وہ پہلے موسیقار ہیں جنہوں نے مین سٹریم بلوچی ادب کو بلوچی موسیقی میں اس خوبی کے ساتھ متعارف کرایا اور ایسی عظیم دْھنیں تخلیق کیں جو آج بھی بلوچی موسیقی کا وقار اور اعتبار ہیں۔ کبھی کسی شام کی تنہائی میں ‘‘ بیا او مرید’’ کو سنئیے تو یوں گماں ہوتا ہے کہ کوئی عاشقِ تن سوختہ ہانی کے مجنوں مْرید کو دعوتِ مبارضہ دے رہا ہے۔
اعلی شاعری جب اعلی دھنوں سے مرصع ہوتی ہے تو ہی ایسے شہکار وجود میں آتے ہیں جو ہر دور کے لیے ہوتے ہیں اور سدا بہار کہلاتے ہیں۔
ایک الزام جو بڑی کثرت کے ساتھ ہمارے ہاں استاد صاحبان پہ لگایا جاتا رہا ہے وہ یہ کہ ہمارے ہاں استاد اپنا فن شاگردوں میں منتقل نہیں کرتے، شاگرد پیدا نہیں کرتے، یہاں بھی استاد عبدالستار اپنی مثال آپ ہیں۔ خود استاد کا کہنا ہے کہ انہوں نے سو سے زیادہ شاگرد بنائے ۔استاد کا کہنا تھا کہ کراچی کی نسبت مکران کے شاگردوں میں سیکھنے کی تڑپ اور کام کی لگن زیادہ دیکھی۔اسی محنت اور لگن کی وجہ سے ان میں سے کئی آج خود اپنا ایک منفرد مقام بنانے میں کامیاب ہیں۔استاد عبدالستار نے موسیقی اور گائیکی کے ساتھ ساتھ شاعری بھی کی ۔اور اپنابہت سا کلام خود گایا جیسا کہ
‘‘ بولان منی ساہِ بدل بولان منی جان و جَگر ‘‘
اور ایسا کْھب کے گایا کہ ہر نغمے کو سن کر احساس ہوتا ہے کہ نغمہ نگار نے کیسے ہر لفظ کو موسیقی اور آواز کی خوبصورتی کے ساتھ روشن اور منور کیا ہے۔
کہتے ہیں کہ جن راستوں پہ لوگ چلنا چھوڑ دیں وہاں گھاس اْگ آتی ہے۔ صد لائقِ تحسین ہیں وہ لوگ جو آوازوں کے اس جنگل میں معدوم ہوتی ہماری ان میٹھی آوازوں کو ہماری یادوں میں تازہ کرتے رہتے ہیں اور سریلی چھاؤں رکھنے والی ان پگڈنڈیوں پہ وقت کی گھاس کو کبھی اگنے نہیں دیتے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے