میں لکھنا چاہتی ہوں
ایک ایسی نظم
جس کے کوئی بھی معنی نہ ہوں!۔

سلگی ہوئی آنکھوں کی پتلی کے عقب میں
ایک جامد خواب کے دل کی ہتھیلی پر
کسی ناآشنا چہرے کی بیگانہ روی کے نیل سے
کروٹ بھرے تکیے کے نیچے
اک دریدہ لمس کی چادر کے پرزوں پر

کسی اعلان گم شدگی کی لاحاصل صدا جیسی
جنونی قہقہے کی معنویت کو بیاں کرتی ہوئی
لذت بھری اکتاہٹوں کا منہ چڑاتی
آپ اپنے سے اکجھتی!
خود کو اپنے داؤ سے خود ہی گراتی!۔

خاک میں لتھڑی ہوئی انگلی کے ناخن سے
کسی خاکی بدن پر خون کی باریک دھاروں سے
کئی ان دیکھے رازوں کے
نئے نقشے بناتی!۔
اور ان میں ڈوب جاتی!۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے