میرے اندر جو کلبلاہٹ ہے
وہ مجھے مزید کھوکھلا کر رہی ہے
مجھے پر اعتماد ہونے کے لیے
مزید اکسا رہی ہے
مگر اب اعتماد کس خواہش کے لیے
وہ جو تمام رشتے تھے
وہ توبے عکس ہوگئے ہیں
وہ جو وطن سے تو تعات تھیں
وہ خاک ہوگئی ہیں
زن اور زر کے عفریت
غیرت کو ادھیڑ پھینکنے کو
قبروں سے لے کر علم کے نام پر
سب خیموں کو اکھاڑ پھینک رہے ہیں
تم افلاطون بن کے آخر کرنا کیا چاہتی ہو
جانتی ہو
سڑک پہ نکلو گی
تو مشال اور نقیب کی طرح
وطن دشمن کہہ کر مار دی جاؤ گی
منافقت کی نقاب اوڑھے
چوہے کی طرح اِسے کترتی رہو
ڈوبتے سورج کی طرح
آخر زندگی گزر ہی جائے گی۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے