ہم اکثر سُنتے اور پڑھتے ہیں کہ فلاں شخص یا فلاں گروہ فلاں چیز کا رجحان ساز ( Trand setter) ہے ۔ مثلاً گلو کاری کا فلاں انداز گلوکار یا میوزک بینڈ نے متعارف کروایا ،یا مصوری کا کون سا انداز کس نے مقبول کروایا ۔ لیکن پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ دیکھتے دیکھتے وہ رجحان ختم یا تبدیل ہو جاتا ہے بلکہ بسا اوقات خود Trand Setterاپنے ٹرینڈ کی بجائے کوئی اور ٹرینڈ قائم کردیتا ہے اور ختم یا تبدیل کرنے کی کوشش کی بھی جائے تو ناکام ہوجاتی ہے ۔
اس وقت رجحان سازی کے حوالے سے جوبات میں کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ کسی ملک یا کمیونٹی کے لوگوں میں کوئی رجحان دیر تک قائم رہنے کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں ۔
۔1۔رجحان قائم کرنے والے شخص یاگروہ کا با اثر ہونا ، 2 ۔رجحان قبول کرنے والی اکثریت کی دل چسپی یا 3۔حالات کا جبر
بہت سے Trandیا رجحان ایسے ہوتے ہیں جو کسی ملک یا قوم کی شناخت بن جاتے ہیں ، اور اُس قوم یا ملک کے لوگوں کے خون میں شامل اور سماج کی بنیاد سمجھے جاتے ہیں اور ان کے اِن رویوں کے بغیر ان کا ذکر کرنا مکمل رہتا ہے مثلاً نرم ہونا، درشت ہونا، ایماندار ہونا، بد خو ہونا، بے ایمان ہونا، خود غرض ہونا، دھوکے باز ہونا، ظالم ہونا، لٹیرا ہونا، برتری کا زعم یا کم تر ہونے کا احساس۔ اسی نوع کی دیگر باتیں۔
اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں یا معاصر دنیا کا مشاہدہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اوپر دیے گئے تینوں عوامل کسی رجحان، رویے یا احساس کے قائم ہونے میں حصہ دار ہوتے ہیں ۔تاہم سب سے اہم اور بنیادی کردار معاشرے کے اثر انگیز (بالادست) طبقے کا ہوتا ہے۔ مثلاً اگر آپ قبائلی زندگی پر غور کریں تو دیکھیں گے کہ اگر کسی طاقتور وڈیرے ، سردار ، یا نواب نے داڑھی مونچھ کا کوئی انداز اختیار کیا تو وہ انداز بیسیوں برسوں بلکہ صدیوں تک اس قبیلے کی پہچان اور باعث تفخر سمجھا جاتا ہے ۔ اگر بالائی (بالادست ) طبقہ قتل وغارت کے ذریعے اپنی دہشت اور دولت میں اضافے کو اچھا طریقہ سمجھتا ہے تو زیریں (مجبور) طبقہ بھی اسے درست سمجھتا ہے ۔اگر ہزاروں برس پہلے جنگ کو معیشت اور مالِ غنیمت کو ذریعہ آمدن گردانتا ہے تو آج بھی براہِ راست یا بالواسطہ ایسا ہی سمجھتا ہے۔ بالادست طبقے کو درست جاننا اور اس کی پیروی کرنے کے عمل کو اکثر یتی طبقے میں پذیرائی حاصل ہونے کی وجہ بلکہ وجوہات بہت ساری ہیں ۔ سب سے بڑی وجہ تو خوف ہے کہ اگر بالا دست طبقے سے اختلاف کیا تو سزاؤں اور معاشی ومعاشرتی نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دوئم یہ کہ ان کی بات مان کر ، اپنا کر، فوائد حاصل ہونگے اور اعلیٰ طبقے کا ساتھ نصیب ہوگا۔ سوئم یہ کہ انسان کو ابتداء ہی سے یقین ہے کہ کوئی اُس سے زبردست ہے (یا ہونا چاہیے) جو اُس کے لیے آسانیاں حاصل کرے اور اُسے مصائب سے محفوظ رکھے ، اور جو ایسا ہے یا ہونا چاہیے اُس کی تقلید لازمی ہوجاتی ہے ۔ چاہے وہ سردی میں حرارت مہیا کرنے والی آگ ہو، دھوپ میں سایہ اور بھوک میں خوراک دینے والا درخت ہو، طوفان اور زلزلہ لانے والا دیوتا یا دیوی ہو یا پھر تکلیف اور مصیبت میں مبتلا کرنے یا (کبھی کبھی ) آسانیاں عطا کرنے کی اہلیت رکھنے والا شخص یا طبقہ ہو۔ دنیا کے کسی بھی حصے کی اساطیری کہانیوں کو ، دیو مالا کو اٹھا کر دیکھ لیں تو پتہ چلے گا کہ دیوی یا دیوتا (یعنی طاقتور) ہر طرح کی خوبیوں کا مالک ہے ، یعنی حسین ہے ، عقلمند ہے اور طاقتور تو ہے ہی ۔ اُس جیسا کوئی دوسرا نہیں ۔ لہذا جو کچھ اُس نے کیا ہے یا کہا ہے یا سوچا ہے وہی ٹرینڈ بنے گا اور اسی کو اختیار کرنے میں نجات ہے اور جو اسے اختیار نہ کرے گا وہ غلط ہے ، گنہ گار ہے اور قابل تعزیر ہے ۔
یہی صورت بادشاہ ، شہنشاہ کی ہے کہ جو اُس نے چاہا وہی اُس کی رعایا کا دین وایمان ہے۔ اُس کی مرضی کے برعکس کچھ کہنا ، کرنا، سوچنا نہ صرف غیض شاہی کا جواز بنتا ہے بلکہ عذاب الٰہی کو بھی دعوت دیتا ہے کیونکہ بادشاہ ظل الٰہی ہوتا ہے۔
اب دوسری بات کی طرف آتے ہیں۔ یعنی کہ کسی رجحان کو قبول کرنے والی اکثریت (عوام) کی کسی چیز میں دل چسپی ۔ تو اس میں بھی اکثر چیزوں میں بڑا کردار تو طاقتور گروہ یا شخص کی مرضی ہوتا ہے لیکن بعض چیزیں ایسی ہیں کہ جن میں پہلے نکتہ کی دخل اندازی سے ہٹ کر بھی اکثریت کسی رجحان یارویہ کو اپنانے میں آزاد ہوتی ہے ۔ مثلاً شعر و ادب کو لے لیں۔ اگر چہ یہاں بھی مثل مشہور کروائی گئی کہ کلام الملوک ملوک الکلام یعنی شاہوں کا کلام کلاموں کا شاہ ہوتا ہے ۔ لیکن اکثریت اگر فوری طور پر نہیں تو وقت کے ساتھ ساتھ فیصلہ دے دیتی ہے کہ زندہ کلام وہی ہے جو واقعی اچھا کلام ہے اور بادشاہ کا کلام اس کے اقتدار تک تو کلام کا بادشاہ رہتا ہے لیکن بعد میں تاریخ کے کباڑ خانہ میں چلا جاتا ہے ۔ عہد جدید میں بھی دیکھیں تو پتہ لگے گا کہ جب کسی مطلق العنان حکمران نے کوئی کتاب لکھی (لکھوائی) تو اُس کے عہد تک وہ بے مثل کہلاتی ہے اور بیسٹ سیلر مشہور کروائی جاتی ہے لیکن اس کی حکومت کے جاتے ہی ردی فروش کے پاس پہنچ جاتی ہے ۔ یہی معاملہ موسیقی اور دوسرے فنون کا بھی ہے ۔موسیقی اچھی تو وہی جانی جاتی ہے جسے بالادست طبقہ پسند کرے لیکن اس میں گنجائش ہے کہ عامتہ الناس موسیقی میں اپنی پسند اختیار کر لیتی ہے اور موسیقار یا گلوکار اگر واقعی کمالِ فن رکھتا ہے تو وہ اپنا رستہ بنا لیتا ہے ۔
موجودہ عہد میں ایک اور صورت حال سامنے آئی ہے کہ مصنوعی طریقوں سے کسی فن میں نامور ہوجانا۔اداکاری گلوکاری اور اسی نوع کے دوسرے فنون جو کسی بھی انسان کو قدرت سے ودیعت ہوتی ہیں اور پھر ریاضت کے ذریعے ان میں درجہ کمال تک پہنچا جاتا ہے ، اب ان شعبوں میں بھی زر کی چمک اور سماجی اثر و رسوخ کے ذریعے بظاہر بلند مرتبے تک پہنچا جاسکتا ہے ۔یعنی استحصال کنندہ طبقہ یہاں بھی پنجے گاڑ چکا ہے ۔ شعر و ادب کا توپوچھیئے ہی مت کہ یہاں کا تو باواآدم ہی نرالا ہے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں پڑھے لکھے لوگوں کا تناسب ہی کتنا ہے ؟۔ اور پھر ان میں کتنے ادب سے دل چسپی رکھتے ہیں؟ ۔پھر ان دل چسپی رکھنے والے لوگوں میں کتنے اس قابل ہیں کہ اس دور میں جب زندگی معاشی اور سماجی مسائل کا مجموعہ بن چکی ہے ، سنجیدگی سے ادب کی طرف رجوع کرسکیں ۔ اوپر سے خود لکھنے والوں نے تماشا بنایا ہوا ہے ۔ ایک طرف ساری زندگی شاعری کو عبادت بنا کر جینے والا عین سلام ایک محدود حلقے میں جانا جاتا ہے تو دوسری کوئی متشاعر اپنے ’’معاشرتی کمالات ‘‘ کے ذریعے نابغہ روز گار شاعر ہونے کا اعلان کرتا ہے اور اس کے معاشرتی کمالات سے لطف اندوز ہونے والے اس کے دعویٰ پر اپنی مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں۔ اس طرح ایک نیا ٹرینڈ ’’سیٹ‘‘ ہوتا ہے ، گراوٹ کا ، سطحیت کا ، بد تہذیبی کا۔
تیسرا نکتہ ہے حالات کا جبر جو کسی ٹرینڈ ، روایت یا عادت کو اختیار کرنے پر مجبور کر دیتا ہے ۔ البتہ یہ اختیار اور مجبوری مختلف سطح کی ہوسکتی ہے ۔ مثلاً ایک سطح تویہ ہے کہ سرکار، دربار میں بہر قیمت رسائی رکھنے کے خواہشمند لوگ اگر یحیٰ خان کے عہد میں خود کو راسپوٹین ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہوتے ہیں تو ضیاء دور میں نماز کی سفید ٹوپی ہمہ وقت ان کے سر یا کم از کم جیب سے اپنی رونمائی کرواتی ہے۔ ایک سطح یہ بھی ہے کہ جیسے اگر کسی معاشرے میں زندہ رہنے کے لیے چاپلوسی ، چھینا جھپٹی ، خود غرضی لازم ہوجائے تو معاشرے کی اکثریت اسے قبول کر لینے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ کیونکہ اگر یہ حرکات نہ کریں تو زندہ نہیں رہ پائیں گے۔ اگر زندہ رہ بھی گئے تو زندہ در گور ہوں گے ۔ اگر کوئی قبیلہ یا قوم دوسروں کی ریشہ دوانیوں، زیادتیوں کا مسلسل شکار رہتی ہے تو پھر وہ ہمیشہ برسرِ پیکار رہنے پر مجبور ہو جاتی ہے ۔ دریاؤں کے کنارے آباد لوگ ایسا طرزِ زندگی اپناتے ہیں کہ جب سیلاب آئے تو محفوظ رہ سکیں ۔جہاں زلزلے کا آنا معمول ہو وہاں مکان بھی ایسے بنانے پڑتے ہیں کہ جو ممکنہ حد تک زلزلے کو برداشت کریں اور نقصان ہو تو کم سے کم ہو۔ حالات کے جبر کی سب سے اندوہناک مثال ہمیں منٹو کے افسانے ’’کھول دو‘‘ میں ملتی ہے ۔
تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ کسی رجحان یا روایت کے قائم ہونے میں تینوں نکات حصہ دار ہوتے ہیں۔ البتہ مختلف مواقع اور حالات کے مطابق کبھی ایک پہلو زیادہ اثر دکھاتا ہے تو کبھی دوسرا ۔اس حوالے سے ایک شعر یاد آرہا ہے ۔

جہاں بھونچال بنیادِ فصیل ودر میں رہتے ہیں
ہمارا حوصلہ دیکھو ہم ایسے گھر میں رہتے ہیں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے