دسمبر2018ء

پورا ہفتہ سنگت کے ممبرز غمِ روزگار میں گم دانہ دنکا چنتے رہتے ہیں لیکن مہینے کے دو اتوار ایسے بھی آتے ہیں کہ سب مل کر سنگت کے اس چراغ میں تیل ڈالنے پروفیشنل اکیڈمی میں اکھٹے ہوتے ہیں جو برسوں پہلے جلایا گیا تھا۔اتوار کی صبح نیم موندی آنکھوں کے ساتھ جوں ہی اکیڈمی پہنچے تو چند ہی سنگت آئے تھے اور دوسرے سنگتوں کے انتظار میں خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ سردی سے بچنے کے لیے دھوپ اور چھاؤں میں وقتاًفوقتاً نشستوں کا تبادلہ کر رہے تھے۔ ڈاکٹر عطا اللہ بزنجو صاحب پروگرام کی میزبانی کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے تھے۔ انھوں نے ہماری بہت خوبصورت شاعرہ فہمیدہ ریاض صاحبہ کی نظم ’مجسمہ گرا دیا گیا‘سے ابتدا کی:
مگر یہ داستاں ابھی تمام تو نہیں ہوئی
کئی ورق سفید ہیں
لکھے گا جن پہ آدمی
ایک اور بابِ جستجو
جی ہاں داستاں کہاں ختم ہوتی ہے ،وہ تو چلتی رہتی ہے اور لکھنے والے اپنے حصے کا باب رقم کرتے چلے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر بزنجو نے ڈاکٹر شاہ محمد مری، سنگت کے سیکرٹری ڈاکٹر ساجد بزدار اور ڈپٹی سیکرٹری جاوید اختر صاحب کو اپنی نشستیں سنبھالنے کی دعوت دی۔ اور پھر وحید زہیر صاحب نے اپنا مضمون’ دکھی ماں ، توانا آواز‘ پڑھا جو کہ محترمہ فہمیدہ ریاض کے بارے میں تھا۔انہوں نے اپنے مضمون میں کہا:
’’ جس ماحول یا گھرانے میں علم اپنی خوبیوں اور توانایوں کے ساتھ پنپ رہا ہووہاں ماضی ، حال اور مستقبل کا ادراک شعور کے بستر پر دائیں بائیں کروٹیں لینے پر مجبور کرتا ہے۔ جن معاشروں میں ظلم و نا انصافی ہو، وہاں ادبا و شعرادن بھر کے خام آئیڈیاز کو راتوں کو جاگ جاگ کرتعبیر دینے کے عمل سے گزارتے ہیں ۔یہ دن اور راتیں شاید عام طورپر انسانوں کے اپنے ہوں مگر تخلیق کاروں کے اپنے نہیں ہوتے۔ فہمیدہ ریاض نے بھی زندگی بھر اپنے دن اور راتیں دکھوں کی پوٹلی میں باندھ کر ایک خوبصورت صبح کے لیے گروی رکھ دیں۔ فیض احمد فیض، حبیب جالب اور گل خان نصیر کی طرح ان پوٹلیوں کو سنبھال کر رکھنے کی ذمہ داریوں میں ایک نئی ذمیداری فہمیدہ ریاض دے کر گئی ہیں‘‘۔
وحید زہیر صاحب کے بعد ڈاکٹر منیر رئیسانی صاحب نے فہمیدہ ریاض صاحبہ کی نظم ’ مجسمہ‘ کا براہوی میں کیا گیا ترجمہ سنایا ،جسے بہت پسند کیا گیا۔
اس کے بعد ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب کو دعوت دی گئی کہ ساہیوال کی دو روزہ ثقافتی و کانفرنس کا حال بتائیں۔ وہ اپنے مخصوص خوبصورت انداز میں گویا ہوئے کہ اس دفعہ کراچی کانفرنس چھوڑ کر ساہیوال کانفرنس میں شرکت کا فیصلہ اس سوچ سے کیا کہ دیکھا جائے کہ سینٹرل پنجاب کے لوگ کیا سوچتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ پنجاب میں ’’زبان ‘‘اور ’’ثقافت‘‘ کی نہیں بلکہ ’’زبانوں ‘‘اور ’’ثقافتوں ‘‘کی بات ہوئی۔وہاں کی بہت بڑی بلوچ آبادی کو بلوچی نہیں آتی لیکن ان کا Source of Inspiration بلوچستان ہے ۔یہاں کے لوگMissing Persons ، بلوچ لڑائی، سنگت اکیڈمی آف سائنسز ، سنڈے پارٹی، پوہ زانت کے بارے میں دلچسپی سے پوچھتے رہے۔گلوبلائیزیشن پر زیادہ تر بات ہوئی۔ وہ ہم سے زیادہ گلوبلائیزیشن سے خوف زدہ تھے۔ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ دو روزہ کانفرنس کے بعد انھیں ہڑپہ لے جایا گیا جو کہ کئی میل پر محیط تھا۔اور کھدائی صرف کچھ فیصد ہوئی تھی۔ ایک well established میوزیم تھا۔ہر چیز بہت اچھی طرح Preserved اور Labelled تھی۔
ستھ گڑھ ( ست گرا) گئے۔ جو کہ محکمہ اوقاف کے انڈر تھا لیکن ہمیں گائیڈ کرنے کے لیے وہ وہاں نہیں تھا۔ چاکرِ اعظم کے مقبرے کے گرد مغل طرز کی کچی دیواریں تھیں ۔کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔
وہاں ایک87 سالہ بزرگ رہتے ہیں اوکاڑہ میں۔رانا اظہر صاحب ان کا نام ہے ۔ وہ بالکل سوبھو گیان چندانی کی طرح تھے،بابا عبداللہ جان کی طرح تھے۔ انھوں نے باقاعدہ ایک تقریب کا اہتمام کیا ، لوگوں کو بلایا جس میں زیادہ تر ٹریڈ یونین اور سیاسی ورکر تھے۔ اس طویل نشست میں سوال جواب ہوئے۔راناصاحب ایک آرٹسٹ ہیں۔ Sculpture بناتے ہیں۔اُن سے مل کر اور ان کی قدم بولی کر کے بہت خوشی ہوئی۔
واپسی پر فہمیدہ ریاض کی قبر پرلاہور حاضری دی۔
ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب نے ساہیوال کا احوال بتایا تو ان سے مختلف سوال بھی ہوئے جن کے انھوں نے سیرحاصل جوابات دیے۔
اس کے بعد ڈاکٹر عطا اللہ بزنجو صاحب نے سنگت اکیڈمی آف سائنسز کے جنرل سیکرٹری کو دعوت دی جو کہ پوہ زانت کی صدارت کر رہے تھے۔ انھوں نے کہاکہ سنگت کے دوست جو الاؤ جلائے رکھتے ہیں،لکھتے ہیں ، پڑھتے ہیں، غور کرتے ہیں ، ان پروگراموں سے توانائی لیتے ہیں ،یہی اصل کام ہے جو جاری رہنا چاہیے۔
آخر میں عابد میر نے سنگت کی قراردادیں پڑھ کر سنائیں۔
۔1۔ گزشتہ دنوں معروف شاعر، ادیب،دانش ور محترمہ فہمیدہ ریاض 72برس کی عمر میں انتقال فرما گئیں۔ فہمیدہ ریاض نے ایک متحرک ادبی و سماجی زندگی گزاری۔ وہ عمر بھرمحکوموں کی ساتھی رہی۔طبقاتی سیاست سے اور بائیں بازو کی فکر سے وابستہ رہی۔ وہ بلوچ عوامی تحریک کی حامی رہی۔وہ آزات جمالدینی،گل خان نصیر،عبداللہ جان جمالدینی کی ہم فکر ساتھی تھی۔اُس کی موت سے ہمارے خطے میں محکوموں کی ایک بڑی آواز خاموش ہو گئی۔ سنگت اکیڈمی فہمیدہ کی رحلت کو ہمارے خطے میں روش خیالی کے قافلے کا بڑا زیاں سمجھتی ہے اور اس فکر کی ترویج کے عزم کو دہراتی ہے۔
۔2۔ یکم دسمبر کو پاکستان میں محکوموں کی ایک اور سیاسی آوا ز جناب فانوس گجر کی صورت ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی۔ فانوس گجر لیفٹ کی سیاست کا بڑا نام ہے۔ انہوں نے ساری عمر محکوم اور مظلوم طبقات کے لیے آواز بلند کی اور عمر کے آخری حصے تک اسی طرزِ فکر کی سیاست سے عملاً وابستہ رہے۔ سنگت اکیڈمی ان کی بے وقت موت کو اپنا نقصان سمجھتی ہے۔
۔3۔ ایک مہذب اور کامیاب ریاست، اداروں کی فعالیت کا مجموعہ ہوتی ہے۔ پاکستان میں آج ادارے غیرفعال ہو چکے ہیں، یہی وجہ ہے کہ شہری اپنے اہلِ خانہ کی ماورائے عدالت گمشدگیوں کے لیے احتجاج کا راستہ اپنانے پر مجبور ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کسی بھی قسم کی ماورائے عدالت سرگرمی، ریاست کو کمزور بنانے کی ساز ش ہے، اس لیے تمام ریاستی اداروں کو اس کا نوٹس لینا چاہیے،ماورائے عدالت گرفتاریاں بند ہونی چاہئیں اور جبری لاپتہ افراد کو عدالتوں کے سامنے لایا جائے۔
۔4۔مہنگائی اور بے روزگاری براہِ راست عام شہری کی زندگی پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ موجودہ حکومت مہنگائی اور بے روزگاری کے عفریت سے نمٹنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے مہنگائی اور بے روزگاری کے جن پر فوری قابو پانے کے اقدامات اٹھائے۔
۔5۔پاکستان میں میڈیا کبھی بھی آزاد نہیں رہا، باوجود اس کے کہ مین اسٹریم میڈیا ہمیشہ طاقت ور قوتوں کا دُم چھلا رہا ہے، مگر آج بعض اندرونی تضادات کے باعث انہی قوتوں کے جبرکا شکار ہے، جس کا براہِ راست شکار عام کارکن صحافی ہو رہا ہے، اور اس کا اثر عوام پر بھی پڑ رہا ہے۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ میڈیا کو ہر قسم کے جبر سے آزاد ہونا چاہیے اور اسے ہر قسم کے دباؤ سے آزاد ہو کر عوامی امنگوں کی ترجمانی کرنی چاہیے۔نیز بلوچستان میں حقیقی اخبارات کے خلاف سرکاری اشتہارات کے نام پر حکومتی دباؤ کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
۔6۔گوادر کے ساحل پر ایکسپریس وے کی تعمیر سے ہزاروں ماہی گیروں کا مستقبل داؤ پر لگ چکا ہے۔ سنگت اکیڈمی کا ماننا ہے کہ شہریوں کو باعزت روزگار کی فراہمی ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ گوادر میں ترقی ضرور ہونی چاہیے لیکن اس ترقی کے ثمرات سب سے پہلے وہاں کے عوام تک پہنچنے چاہئیں، نہ کہ ترقی کے نام پر انہیں روزگار سے محروم کیا جائے۔ سنگت اکیڈمی کا مطالبہ ہے کہ سرکارگوادر میں ماہی گیروں کے مسائل کوخصوصی فوری توجہ دے اور ان کی منشا کے مطابق اس کا حل نکالے۔
۔7۔پاکستان بیرونی دراندازی کی غلط ریاستی پالیسیوں کے نتیجے میں ایک عرصے سے دہشت گردی کا شکار ہے۔آج جب کہ اسے خود داخلی استحکام کی ضرورت ہے، ایسے میں دیگر ممالک میں اپنی فوج بھیجنا اور دوسرے خطوں کے مسائل میں ثالثی کے نام پر ٹانگ اڑانا، ریاست اور خطے کے لیے مزید مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ریاست کو ہر نوع کے بیرونی محاذ بند کر کے ملکی استحکام پر توجہ دینی چاہیے۔
۔8۔پنجاب میں زیرتعلیم بلوچستان کے طلبا کے ساتھ زیادتیوں کی خبریں گزشتہ ایک عرصے سے ذرائع ابلاغ میں سرگرم ہیں۔ خصوصاً حالیہ دنوں ملتان یونیورسٹی میں ہاسٹل سے طلبا کی بے دخلی اور انہیں بعض افراد کی جانب سے دہشت گرد قرار دیا جانا نہایت قابلِ افسوس امر ہے۔پنجاب میں زیرتعلیم بلوچستان کے طلبا کی ایک عرصے سے پروفائلنگ اور اس نوع کے واقعات تواتر سے ہو رہے ہیں۔ ہم اس رویے کی سخت مذمت کرتے ہوئے، حکومتِ بلوچستان،حکومتِ پنجاب اور وفاقی حکومت سے اس کا فوری نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
۔9۔ بلوچستان میں غیرمنتخب نمائندوں اور غیر اتھارٹی (unathorized) افراد کی جانب سے اداروں میں مداخلت کا ایک نیا رجحان سامنے آیا ہے۔ یہ ایک قابلِ مذمت رویہ ہے۔ آئے روز تعلیمی یا انتظامی اداروں میں ایسے افراد کا گھسنا اور وہاں کے معاملات میں دخل اندازی نہایت غیرآئینی ، غیرقانونی و غیر اخلاقی طریقہ کا رہے۔ خصوصاً گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ بلوچستان کی اہلیہ کی جانب سے سول ہسپتال کوئٹہ کا دورہ اور سینئر ڈاکٹرز کے ساتھ ناروا رویہ افسوس ناک ہے۔ اس کی سخت مذمت کی جاتی ہے۔
۔10۔ پاکستان میں ایک طویل عرصے بعد اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو کچھ اختیارات منتقل ہوئے، جس سے صوبے بااختیار ہوئے۔ لیکن اب کچھ عرصے سے بعض قوتیں اس ترمیم کو رول بیک کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، جس کا اظہار موجودہ حکومت کی جانب سے این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ کم کرنے کی صورت میں بھی کیا گیا ہے۔ ایسا کوئی بھی اقدام غیرآئینی ہونے کے ساتھ ساتھ فیڈریشن کی کمزوری کی علامت ہو گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اٹھارویں ترمیم صوبوں کو بااختیاربنانے اور فیڈریشن کو مستحکم بنانے کا اہم ذریعہ ہے۔ صوبائی حکومت کی جانب سے اس بابت قانون سازی کا فقدان ان کی نااہلی کے ساتھ ساتھ ، اس ترمیم کو کمزور بنانے کی بھی سازش ہے۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ صوبائی حکومت کو فوراً اس ضمن میں قانون سازی کر کے اسے مستحکم بنانا چاہیے۔ اس ترمیم کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑچھاڑ کی سنگت اکیڈمی سخت مخالفت کرے گی۔
یہ قراردادیں متفقہ طور پر منظور کرلی گئیں۔
اس کے ساتھ ہی بزنجو صاحب نے سب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے پوہ زانت کے ختم ہونے کا اعلان کیا اور سب گروپ فوٹو کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے