شرکا: ریشم بلوچ،عائشہ رحمان،عذرا پندرانی،نوربانو، عابدہ رحمان
سرکل میں سنگت کی جانب سے شائع کیا گیا مختصر ناول ’’گند م کی روٹی‘‘ پر گفتگو ہوئی، جسے شرکا پہلے سے پڑھ کر آئے تھے۔ یہ ناول افغان انقلاب سے متعلق لکھا گیا ہے۔ جسے افغانستان کے بلوچ ادیب عبدالستار پردلی نے بلوچی میں تحریر کیا ہے۔ اردو ترجمہ ڈاکٹر شاہ محمد مری نے کیا ہے۔
سرکل میں مجموعی طو رپر ہونے والی گفتگو کے اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں:
یہ ناول پانچ ابواب پر مبنی ہے۔جو افغان انقلاب کے تناظر میں لکھا گیا ہے۔پہلے باب میں اس خاندان کی غربت کا بتایا گیا جو گندم کی روٹی تک کو ترستا ہے۔سردی میں آدھے ادھورے کپڑے پہنے اور ننگے پاؤں پھرتے ہیں۔جاگیردار کا ظلم،پرانے قرض جو ختم نہیں ہوتے۔زینہ بہ زینہ کہانی آ گے چلتی ہے۔اور یہ تودس سالوں کی قید میںیہ شعور آ تا ہے کہ ہمارے ساتھ ظلم ہورہا ہے،استحصال ہو رہا ہے۔تب جا کر وہ اس پر کام کرتے ہیں۔ چینج ایک دم آ ہی نہیں سکتا۔
ہم اگر اس ناول کو اپنے آ ج کے حالات سے مماثلت دے کردیکھیں تو آ ج بھی یہی حال ہے۔ہماری قسمت کے فیصلے کوئی اور کر رہا ہے۔اس طرح ناول میں آ ہستہ آہستہ لوگ ہم خیال بنتے ہیں،بڑھتے ہیں اور ایک وقت آ تا ہے جب وہ اس قابل ہو جاتے ہیں کہ اس ظلم کے خلاف آ واز اٹھائی جائے اور جب انقلاب کی بات ہو تب تو میری ملکیت،میری گاڑی کچھ نہیں۔پھر تو پرانے نظام کو ختم کر کے ایک نیا نظام لانا ہوتا ہے ،اس لیے پرانا سب ختم ہونا ہوتا ہے۔
ایک اچھاناول تھا۔مترجم نے اچھا ترجمہ کیا۔اس ناول سے کچھ نیا سیکھنے کوملا، کچھ نئی اصطلاحات کا پتہ چلا۔۔پہلے باب میں سوسائٹی کا بتایا یعنی بالائی اور نچلے طبقے کا۔معیشت اگر مضبوط نہیں ہوگی تو کچھ بھی مضبوط نہیں ہوگا۔یہ استحصال اور جبرکی کہانی ہے۔سب کچھ ہمارا ہے ،فیصلے کوئی اور کر رہا ہے۔
کہیں کہیں تباہ کن تبدیلی دکھائی گئی لیکن دوسری طرف دیکھو تو بندے نے دس سال جیل میں گزارے۔ مرحلہ وارسٹڈی کی تب جا کرعملی تبدیلی کا مرحلہ آ یا۔لیکن دو سوال جو ذہن میںآ ئے؛نمبر ایک، ملکیت کسی کی ہے،گاڑی میری ہے،کسی اور کو تباہ کرنے کا کیا حق؟ کوئی اورآپشن بھی تو ہوسکتا تھا۔ نمبر دو، یا پھر یہ انقلاب تھا؟
ایک اور ساتھی نے سوال کیا کہ کیا لوگ اتنے ظالم ہوتے ہیں؟کیا وہ مزید ظلم نہیں کر سکتے تھے؟، جس کا جواب یہ ملا کہ جو پٹتا ہے وہ پٹتا چلا جاتا ہے لیکن اگر کوئی جیک کوئی سپورٹ ملتی ہے تب وہ بول اٹھتا ہے کیونکہ وہ جان جاتا ہے کہ میں اکیلا نہیں ہوں۔جھنجھوڑنا ضروری ہوتا ہے، حق لینے کے لیے۔
ایک ساتھی نے کہا کہ بطورسماج ہمیں تقسیم کیا گیاہے طبقاتی طور پر۔وڈیروں اورجاگیرداروں کی حکومت کو کوئی ختم نہیں کر سکا۔ہاریوں کو زدوکوب کیا گیا۔لیکن جب عوام کو متبادل ملا تو وہ اس کی طرف لپکے بھی۔
دراصل کوئی ہمت نہیں کرتا۔ایک مظلوم دوسرے مظلوم سے لڑتا ہے ،جس سے فائدہ وڈیرے کو ہوتا ہے۔ناول میں یہ سب ایک پیج پر ہوتے ہیں۔
غریب کا سب سے اہم مسئلہ بچوں کا پیٹ پالنا ہے،حقوق کی بات ہو تو کہتے ہیں چھوڑو کون لڑے اب۔
سوال کیا گیا کہ کیا آ پ لوگ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان میں طبقات ہیں؟۔ اکثریت نے کہا،جی بالکل ہیں ؛ ایک طرف ٹرانسپورٹر ، جاگیردار، معدنی کان مالکان سردار اور بڑی بیوروکریسی ہے ، دوسری طرف کسان، معدنی مزدور، چرواہے ، ریل ، واپڈا پوسٹ آفس اور زرعی مزدور ہیں۔
ایک ساتھی نے ساری بحث کوسمیٹتے ہوئے کہا کہ ہمیشہ کہا جاتا ہے کہ یہاں طبقات نہیں ہیں۔لیکن اگر سردار، مائن اونر،جاگیردار،سرمایہ دار مان جائیں کہ یہاں طبقات ہیں تو ان کی سرداری وجاگیرداری کو خطرہ ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جاگیردار ہے تو مزارع بھی ہے، گوادر میں شپ اونرز ہیں تو غریب ماہی گیر بھی ہے،مائینز اونر ہیں تو غریب کانکن بھی ہے کیا طبقات نہیں ہیں یہ؟۔
آ خر میں طے پایا کہ اگلے مہینے یعنی دسمبر کی 8 یا 9 کو اگلا سرکل ہوگا۔موضوع اور مقام کا تعین دزگہار گروپ میں کیا جائے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے