ابھی حال ہی میں سیاسی افق پہ بے شمار ابھار اور ڈبکیاں کھانے والی بلوچستان بیسڈ اِس پارلیمانی طرزِ سیاست والی پارٹی نے اپنی پانچویں کانگریس منعقد کی۔ حالیہ عام انتخابات کے بعد یہ اس کی ایک بہت بڑی سرگرمی تھی۔
اقتدار سے قبل یہ پارٹی اپنے ممبروں اور ہمدرد لوگوں کی ایک طرح سے امیدوں کا مرکز تھی۔ مگر، تیسرے درجے کے عاشقوں کی طرح نام نہاد الیکٹبل لوگوں کے پیچھے پڑ کر اس پارٹی نے اپنا بھٹہ بٹھا دیا تھا۔ اقتدار میں رہ کر اس پارٹی کا سربراہ خواہ کتنا ہی مالی سیاسی طور پر ساکھ میں بہتر رہا مگر بقیہ لوگ دیگر پارٹیوں کے لوگوں کی طرح ہی بدنام ہوئے ۔
سو یہ پارٹی الیکشن ہار گئی۔کچھ لوگوں کا یہ خیال بھی ہے کہ پارٹی کو نواز شریف کی ’’پارلیمنٹ کی بالادستی ، اور انڈیا سے دوستی ‘‘والے موقف کا ساتھ دینے کی وجہ اداروں نے شکست دے دی ۔
بہر حال یہ ہار آسمانوں کی طرف سے اس پارٹی کو پہلا تحفہ تھا۔ دوسری بڑی نعمت نیشنل پارٹی کیلئے اُس کی کانگریس ثابت ہوئی۔ اس کانگریس میں سب سے اچھا کام یہ ہوا کہ سرکاری لیویزوالے گن مینی سردار ان یہاں سے مکمل طور پر غائب تھے ۔ اب سیاسی لوگ ہی رہ گئے۔ ایسے لوگ جو بورژوا جمہوری انداز والی سیاسی آزادیاں اور ادارے چاہتے ہیں۔ تقریباً ایک ہزار کونسلرز پورے پاکستان سے ۔سیاسی لوگ تو معاشرے میں اللہ کی نعمت ہوتے ہیں۔ اُن سے اختلاف ہوسکتا ہے ، اتفاق ہوسکتا ہے ، بات اور مکالمہ ہوسکتا ہے ۔
کانگریس سیاسی جماعتوں کی اہم ترین سرگرمی ہوتی ہے ۔ پالیسیوں پر تنقیدو خود تنقیدی ، توثیق ، استرداد، ترمیم اور آخر میں اگلے عرصے کے لیے پارٹی اداروں کے لیے افراد کا انتخاب اہم امور ہوتے ہیں۔
چونکہ حال ہی میں عام انتخابات ہوئے تھے لہذا زیادہ تر بحث مباحثہ انہی الیکشنوں کے حوالے سے رہا۔ بورژوا پارٹیوں میں الیکشنوں کے وقت جو ٹرن، ری ٹرن، یوٹرن ، اور اباؤٹ ٹرن ہوتے ہیں تیسری دنیا اس کی سب سے بڑی نمائش گاہ ہے ۔ چنانچہ اس پارٹی نے بھی ایسے ایسے لوگوں سے ہاتھ ملائے ، اور ہاتھ چھڑائے کہ لفظ ’’ناشد ‘‘ بھی حیران رہ جائے ۔اور پھر یہ حکومت میں رہی تو ایسے ایسے افراد اور گروہوں پارٹیوں سے تعلق میں رہی کہ سوچ کر بھی جھر جھری آتی ہے ۔
بلوچستان کے عوام عملی طورپر سرداروں سے جان چھڑا چکے ہیں۔ کم از کم الیکشنوں میں تو بالکل یہ بات سچ ہے ۔مگر اس کے باوجود عوام سردار کو اداروں کی طرف سے میسر وقتی آشیرباد اور اسے حاصل بڑی گاڑیوں اور لیویز کے باڈی گارڈوں سے ،متاثر ہوجاتے ہیں۔ لہذا حکومتوں پرساری تنقید دراصل سرداروں کے بجائے اُن کی اتحادی پارٹیوں کے سیاسی ورکرز کو سہنی پڑتی ہے ۔ آپ ساری منتخب حکومتوں پہ غور کیجئے تو 90فیصد وقت وزراتِ اعلی سرداروں کے پاس رہی۔ مگر اُن حکومتوں پہ تنقیدیں اکٹھا کیجئے تو آپ کو 5فیصد تنقید بھی سردار پہ نہ ملے گی۔ اور ایسا کیوں نہ ہو؟۔ سردار نے کب خود کو سیاسی ورکر کہا۔ سوال جواب تو سیاسی ورکر ہی کا کام ہوتا ہے ۔
اِس کانگریس اہم ترین فیصلہ تویہ نظر آتاہے کہ اگلے الیکشن آنے تک پارٹی کی ساری توجہ اپنی تنظیم پر ہوگی۔ کسان، مزدور اور عورتوں جیسی ماس آرگنائز یشنوں کی کانفرنسیں ہوں گی۔ اور سیاست کی بنیادی باتوں پہ روز ہوگا۔
ظاہر ہے کہ صدیوں کے تاریخی تسلسل میں بلوچستان کی سیاست کرنی ہوتو، خواہ آپ بورژوا سیاست ہی کرتے ہوں تو جھکا ؤمسلسل مزید بائیں طرف رکھنا ہوتا ہے۔بلوچ معاملات پہ مزید توجہ مرکوز رکھنی ہوگی ۔سر فہرست معاملات توگوادر اور معدنی وسائل پہ ایک واضح سٹینڈ لینے کے ہیں۔ اپنی سیاست فیوڈل لارڈز کے ہاتھوں سے مکمل طور پر نکالنی ہوگی۔ فیصلے قبائلی بنیاد کے بجائے سیاسی بنیادوں پہ کرنے ہوں گے۔ اور ایک ذمہ دار اور بڑی پارٹی کے بطور چلنا ہوگا جس میں دوسری سیاسی پارٹیوں اور گروپوں کے ساتھ باعزت ورکنگ ریلشن شپ قائم کرنا ضروری ہوں گے ۔
اور سب سے اہم بات یہ کہ اُسے ایک موثر اپوزیشن پارٹی کا کردار ادا کرنا ہوگا جس میں بالخصوص اٹھارویں آئینی ترمیم کی حفاظت سر فہرست آتی ہے ۔اِس ترمیم کو سخت خطرات لگتے ہیں۔ اور ہر طرح سے اس میں سوراخ ڈالنے کی کوششیں جاری ہیں۔ محکوم قوموں کی سیاسی پارٹیوں (خواہ وہ بورژوا سیاسی پارٹیاں ہوں یا انقلابی سیاست کرنے والی )کو فوری فریضہ یہ پیش ہے کہ اِس ترمیم کو بچایا جائے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے