(ساہیوال ادبی و ثقافتی کانفرنس میں پڑھا گیا)

خواتین وحضرات! سائنس کی زلف جب جب کُھل کے بکھرتی ہے تو روایتوں، رواجوں ، بدعتوں کی دنیا اندھیر ہوجاتی ہے ۔ عمومی طور پر تو اَٹکے اور بھٹکے ذہنوں پہ اس سلسلے کا سب سے بڑا تمانچہ فزکس مارتی ہے۔ مگر ہمارے ہاں تو یہ مقدس کام آرکیالوجی نے کیا ۔ سائنس دانوں نے بلوچستان کے ایک مقام مہر گڑھ میں ایک پوری سولائزیشن دریافت کرلی۔اب تک دنیا کی دریافت کردہ یہ سب سے قدیم تہذیب چھ ہزار سال تک سلامتی سے مہرگڑھ میں آباد ہونے کے بعد موہن جو دڑو اورہڑپہ مہاجرت کر گئی تھی۔اتنی بڑی دریافت کہ ، اس پورے خطے کی تاریخ پر لکھی گئی تقریباً ساری کتابیں باطل قرار پائیں۔
آرکیالوجی کی جدید ترین دریافت یہ ہے کہ ہمارے منطقے کی مشترکہ تاریخ 1947سے شروع نہیں ہوتی، نہ ہی انڈس سولائزیشن سے ،بلکہ گیارہ ہزار سال قبل سے شروع ہوتی ہے۔ ہمسب اُسی مہرگڑھ سولائزیشن کی اولاد ہیں۔ہم سب کی زبانیں، ہماری ثقافتیں اُسی ایک سرچشمے سے پھوٹی ہیں۔
ہمارا ایک اور عقیدہ بھی دھڑام سے گر گیا ۔وہ یہ کہ یاروں نے اب تک اور سرزمین اس کے باشندوں کو ایک نہ رہنے دینے میں ایڑی چوٹی کا زور لگائے رکھا۔ کسی نے خواب دیکھا کہ ہم کیسپین سے یہاں لائے گئے تھے ،کسی کو الہام ہوا کہ ہم حلب سے درآمد کیے گئے ہیں۔ اور کوئی ہمیں زنجیبار سے یہاں گھسیٹ لایا۔ یعنی ہم سب باہر سے آئے مہاجر بتلائے گئے تھے ۔ مہاجر ذہنیت نے سرکاری ذہنیت کا مقام حاصل کیا تو پھر انہوں نے کسی کو مقامی رہنے ہی نہیں دیا۔ گویا ہماری دھرتی نے کبھی انسان جنے ہی نہیں ۔ آدم زاد سب باہر سے یہاں انڈیل دیے گئے ۔اب آثارِ قدیمہ کی نئی دریافتیں اعلان کر رہی ہیں کہ کوئی بہت ’’بڑی ‘‘مائیگریشن باہر سے ہوئی ہی نہیں ۔ یعنی ہم میں سے کوئی بھی قوم، مہاجر نہیں ہے۔ سب یہیں کے ہیں۔نہ صرف ہم جنوبی ایشیا کے لوگ اُسی نرم ، ریتیلی اور مہر کے گھڑھ کے مالک ہیں بلکہ مہرگڑھ کا مادرسری ،پرامن اور تخلیقی معاشرہ ہی قرب وجوار کی ساری تہذیبوں کی ماں ہے ۔ ایران کاشہرِ سوختہ ، قندہارکا مند یگک ،ترکستان کا ٹیپ یحیٰ ،عراق کا میسوپو ٹیمیا، سندھ کا موئن جودھڑو، اور پنجاب کا ہڑپہ مہرگڑ ھ کے پوتے پوتیاں ہیں ۔ہم ریڑھیوں رکشوں پہ بٹھا کر باہر سے نہیں لائے گئے۔
خواتین وحضرات ۔ایک اور کالا کفر بھی ٹوٹ گیا۔ ثابت ہوا کہ مہر گڑھ کا انسان بولتا تھا ۔ گیارہ ہزار سال قبل ہم بولتے تھے ۔ وہاں ہم کیا زبان بولتے تھے، ابھی تک ڈی کوڈنہ ہوسکا۔ مگر یہ بات یقینی ہے کہ سارے وسطی اور جنوبی ایشیاء کے انسانوں ، اُن کی تہذیبوں اور زبانوں کا منبع یہی مہر گڑھ ہے ۔ تماشا یہ تھا کہ مہر گڑھ، کی دریافت سے قبل ،ہماری ہر کتاب میں آریا اور دراوڑنامی دوضحا کی اژدھے موجود رہے ہیں جو ہماری زبانوں کے کندھوں پر براجمان ان کے مغزوں کا ناشتہ فرماتے رہے ہیں۔چنانچہ ہم آپ کی زبان آریائی یاپھر دراوڑی زبان سے جوڑ دیا گیا تھا ۔ جھوٹ نکلا۔اب اگر کوئی ایسا بولے تو سر جھٹک کر دیکھیے ، سفید ریش مہر گڑھی زبان طنز یہ نورانی مسکراہٹ مسکراتی ملے گی۔
بعد میں،مہر گڑھ زبان اور ثقافت کے عناصر ،ارتقا پذیر عہدی تقاضوں کی تکمیل کی خاطر نئی نئی صورتیں اختیار کرتے چلے گئے۔ اُن میں اضافہ بھی ہوتا رہا۔ اور ان میں ورائٹی بھی پیدا ہوتی گئی۔نتیجہ یہ کہ آج اُس ایک زبان سے تعداد میں بہت زیادہ اور ذائقے میں بہت میٹھی زبانیں وجود میں آچکی ہیں۔یوں‘آج ہمارا واسطہ کئی زندہ ، متحرک اور کمال درجے کی ترقی یافتہ زبانوں اور ثقافتوں سے ہے ۔ اس میں اگر ایک طرف مہر گڑھ اور اس کی آبادی کی جنوب اور مشرقی سمت مائیگریشنوں کی قدامت کا ذائقہ موجود ہے تو دوسری طرف اپنے اپنے موسموں، پیداواری قوتوں کی حالت، اور مادی ترقی کے الفاظ و تراکیب کا حسن جلوہ گر ہے۔
خواتین وحضرات ۔تاریخ کے بعد کی ساعتوں میں ہم الگ الگ یا اکٹھے ،حملہ آوروں کی مزاحمت کرتے رہے ۔ مگر ساتھ ساتھ اُن دشمنوں کی زبانوں ثقافتوں کے ساتھ درآمد برآمد میں بھی لگے رہے۔ حتی کہ انیسویں صدی کے اواخر میں قسمت ،انگلش زبان کے ساتھ ہماری لین دین کراتی ہے جو آج تک جاری ہے۔ انگلش زبان نے سائنس اور ٹکنالوجی کے لحاظ سے فارغ شدہ فارسی کو تخت سے گرادیا اور اُس کی جگہ خود لے لی۔ انگریزوں نے ریلوے کے ذریعے ہم شتر بان اقوام کا تعلق ایک سے زیادہ زبانوں اور ثقافتوں سے کروادیا۔ ٹیلی گراف اور ڈاکخانہ کے ذریعے ہمیں آپس میں بھی ملا دیا اور دنیا بھر سے بھی ۔اسی طرح اُس کی برتر سائنس اور ٹیکنالوجی نے یہاں کے بے شمار پیشوں کو ختم کردیا، اُن پیشوں سے متعلق الفاظ و استعارات اکھاڑ پھینکے ۔ اس کی نئی ٹکنالوجی نے ہماری زندگیاں اور زندگی کے طرز تبدیل کر ڈالے ۔یوں، ہم اس جارح دشمن سے تلخ ترین مزاحمتی لڑائی بھی لڑتے رہے اور ثقافتوں کا لین دین بھی ہوتا رہا ۔
انگریز سے ہماری کشت وخون بھری جنگ آزادی جاری تھی کہ دنیا میں ایک بہت بڑا واقعہ ہوگیا: 1917 میں روس کے اندر انقلاب ہوا۔ وہاں سے نئے نئے گانے ترانے نعرے اور نئی باتیں آئیں :مثلاًلینن، سوشلزم، بورژوازی، پرولتاری، دنیا بھر کے مزدور ایک ہوجاؤ ، اور قومی حقِ خود اختیاری وغیرہ ۔ الغرض بہت بڑے فلسفیانہ سوال اپنی مخصوص اصطلاحات کے لشکر کے ساتھ ہماری زبانوں اور ثقافتوں کے وسیع دامن میں آئے اور بالآخر مقامی بنے۔یوں ہر دم نکھرتی سنورتی زبان حضرتِ انسان کی نہ صرف روز مرہ زندگی کو مربوط کرتی رہی ہے بلکہ اس کی روحانی اور ثقافتی لطافتوں کے تقاضوں کو بھی پورا کرتی رہی ہے ۔
اور پھر ، دوستوارتقاکی ہماری تاریخ ایک تاریک ،طویل اور گہرے کھڈ میں گر گئی ۔ ہم باقاعدہ ایک پاگل قیادت میں سرد جنگ کا فعال حصہ بنا دیے گئے۔ یوں ہم خود کو دنیا کا سب سے بنیاد پرست ،سب سے ملی ٹینٹ ،اورسب سے دہشت گرد معاشرہ ثابت کرنے میں ،مکھن ونور سے تراشے اپنے ستر ہزار فرزند مرواگئے ۔بانسری اور مویشیوں کی گھنٹیوں سے دن شروع کرنے والا معاشرہ ،راکٹ لانچر کو اپنے دانت اور ناخن بنا گیا اور ’’اسلام علیکم ‘‘کا شریف ترین انسانی لفظ بارودی سرنگوں سے اپنے چیتھڑے اڑوا گیا ۔
اُس خارجی وحشت کو داخلی قالب بھی تو چاہیے تھا۔ آناً فاناً وہ قالب میسر آگیا۔میتوں کے ماتم کا قالب ، فاقہ پوش اندھیری ساعتوں سالوں کا قالب ، خونِ آدم سے لتھڑی سڑکوں عمارتوں کا قالب ،سرگباش ہیڑو جینٹی کی ارتھی کا قالب ،ڈائی ورسٹی کے مفلڈ ڈرمز کا قالب ۔ چنانچہ کوشش کی گئی کہ سکھر سے بکھر تک اور کوئٹہ سے قصور تک بس ایک ہی وردی کے ہیولے ہوں ، ایک ہی چہرہ کے شاہ دولے والے ہوں ، ایک ہی سیٹی سے روبوٹ شدہ معاشرہ مارچ پاسٹ کرے اور ایک ہی زبان کی بھنبھناہٹ ہو ،باقی ساری صندل زبانیں اپنی ثقافتی میراث کے ساتھ گُنگ اور ٹُنڈ اور مُنڈ ہوجائیں۔بس تالی بجائی جائے اور ساری ثقافتیں ،زبانیں فنا ہو جائیں ۔ایک ہی کالی یک رنگی نافذ ہو،حاملہ سیاہ رات سیاہی ہی کو جنتی رہے ۔اور ہم سب باتیغ بے تیغ ، باوسائل یا بے وسائل لپک لپک کر دنیا میں اِدھر اُدھر پر جھنڈے گاڑتے چلے جائیں۔ بھئی زبان نافذ کرنے والی چیز ہے ؟ ثقافت ‘نافذ کرنے والی چیز ہے ؟ ۔دوستی ‘نافذ کرنے والی چیز ہے ؟ یک جہتی ‘نافذ کرنے والی چیز ہے ؟۔
لگتا ہے ایک آدھ لیڈر کے بعد ہمارے ملک پہ جِن اور بھوت حکمران رہے ہیں۔’’ Sub human‘‘لوگ ، واقعی ہزار سال تک گھاس کھانے کے دلدادہ لوگ ۔ ایسے لوگ جو عوام الناس کی تنظیمی ،اور علمی جڑیں اکھاڑ پھینکنے کے لیے انہیں اُن کی قدیمی زبانوں سے ہی کاٹ ڈالیں۔چنانچہ یہ ہوا کہ ، ہمارے خطے کی سب سے بڑی آبادی والی زبان کا مڈل کلاس اب اپنی عوامی زبان بولتا ہی نہیں۔ اُسے بہت ہنر مندی کے ساتھ اپنی جڑوں سے کاٹ دیا گیا ۔ کٹی پتنگ ،جسے ملّا کے لاؤڈ سپیکر کی جذباتی پھونک جہاں چاہے دھکیل دے۔
خواتین و حضرات۔ زبا ن و ثقافت ایک قوم کی با ئبل ہو تی ہیں۔ یہ اُس کا نمک ، ذائقہ، اوراُس کی شا ن شنا خت ہوتی ہیں، اُس کی مر کزی موٹی جڑ وں میں سے ایک ہوتی ہیں۔ زبا ن وثقافت کسی قوم کے دل کا ساحل ہو تی ہے۔ یہ کسی قوم کی زندگی کا وہ vital organ ہوتی ہے جو قوم کی موت کی صورت میں بھی سب سے آخر میں مرتی ہیں۔تصور تو کیجیے کہ80سال تک ہمارے سماج کا بااثر degeneratedحلقہ موسیقی، ڈانس اور پرفارمنگ آرٹ کے خلاف نفرت پیدا کرتا رہا۔ مگر وہ اِن کوششوں میں مکمل طور پر ناکام ہوچکا ۔ اس لیے ناکام ہوا کہ ہمارے کلچر کا غذی نہیں ہیں، مصنوعی نہیں ہیں اور ریاستی نہیں ہیں ۔ ہمارے زندہ کلچرز، اپنی زمین میں پیوست ہیں اور عوامی ہیں ۔ ہمارے کلچرز اور زبانوں نے تبدل پذیر رجحانات سے نمٹا ہے ۔تاریخ کے پورے دور انیے میں وہ ڈیمو گرافکس، ٹکنالوجی ، گلوبلائزیشن اور اس کے ویلیو سسٹم سے کامیابی کے ساتھ معاملات کرتے آرہے ہیں۔
چنانچہ دوستو! ہماری مادری اور قومی زبانیں ،ثقافتیں اس قدر مضبوط و تو اناہیں کہ انہیں کسی طرح بھی احساسِ کمتری میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ انھیں کسی ’’ نفا ذ تحر یک ‘‘ اور کسی ’’ تفہیم تحر یک ‘‘ کی ضرورت نہیں ہے ۔نہ انھیں ’’ مقتدرہ‘‘ بننے بنانے کی محتاجی ہے۔ دنیا کی ہر زبان انسانوں میں رابطے کا ذریعہ ہے ۔نہ کم نہ زیادہ ۔ نہ کسی کی لاف زنی سے کوئی زبان مقدس گائے بن جاتی ہے اور نہ کسی کے کہنے سے کوئی زبان واپس گنگا جمنی میں دفن کی جاسکتی ہے ۔
چنانچہ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی کسی ایک زبان کو سرکاری زبان اور لنگوافرانکا کی حیثیت حاصل ہوسکتی ہے ۔یعنی آئین میں کسی ایک زبان کو سرکاری کاروبار چلانے کے لیے سرکاری زبان قرار دیا جاسکتا ہے ۔ مگر قومی زبان صرف ایک نہیں ہوسکتی۔ اس لیے کہ قومی زبان ہونے کی صرف ایک شرط ہوتی ہے : یہ، کہ وہ کسی انسانی گروہ کی مادری زبان ہو ۔ چنانچہ پاکستان کی ساری 74مادری زبانیں اس ملک کی قومی زبانیں ہیں۔اِن میں سے ایک زبان بھی غیر قومی یا خارجی نہیں ہے ۔
خواتین وحضرات،ایک اور گڑ بڑ سمت کو بھی اپنی درست کرتے رہنے کی ضرورت ہے ۔ ۔زور زبردستی سے انسانی تسلیم شدہ اصولوں کو تا ابد ختم نہیں کیا جاسکتا۔ہم سب گواہ ہیں کہ جب بھی یہاں کی مادری قومی زبانوں کی تر قی کی بات چلی تو، پی ایچ ڈی لیول کے ہزاروں شاونسٹ لوگوں نے اُسے’’ اپنی زبان کے جناز ے کو دھوم سے نکلنے ‘‘پر محمول کیا۔انہوں نے ایک فرضی جنازے کے خوف سے کتنے اصلی جنا زے نکلوادیے ۔چنانچہ مشرقی پاکستان جنازوں کی بارات میں ہم سے کٹ گیا ۔ بقیہ پاکستان آج تک غیر فطری جنازوں پہ کوئی کمی نہیں لگا سکا۔وحشت کی دراز رسی ختم ہونے کو نہیںآتی تھی ۔مگر، ہم نے دیکھا کہ غُل مچانے سے لوگوں نے اپنی پالن ہار ثقافتوں کو طلاق نہیں دیا۔ اپنی بقا کے لئے ہماری زبانیں محسوس اور غیر محسوس دونوں طریقوں سے جدوجہد کرتی رہی ہیں۔ ایک ایک انچ کی پیش قدمی ،کئی کئی سر کھاتی گئی ۔یاد رکھیے ،ایک غیر جمہوری قدم دس مزید غیر جمہوری اقدامات کا سامان کرتا ہے۔
ذرا ایک اور بات بھی دیکھیے ۔ وہ لوگ جھوٹ بولتے آئے ہیں جو یہ کہتے تھے کہ زبان اور کلچر محض لسانیات اورکلچر کی بات ہوتی ہیں ۔ یہ غلط بات ہے ۔ دنیا بھر میں بالعموم ، اور ہمارے ملک میں بالخصوص زبان اور کلچر محض لسانیاتی معاملات نہیں رہے ۔یہاں ’’زبان‘‘ اور ’’کلچر ‘‘سیاسی معاملہ ہیں ۔ 21فروری نامی عالمی دن کی ولادت مشرقی پاکستان میں ہی ہوئی تھی ۔ زبان اور کلچر کی بنیاد پر ہی یہ ملک ٹوٹا ،اور زبان وکلچر ہی کے نام پہ آج بقیہ پاکستان میں حشر برپا ہے ۔ ہماری تاریخ دیکھیے تو یہاں ایک طرف اوپر سے زبان اور کلچر کی ون یونٹی کے احکامات آرہے تھے تو دوسری طرف ساہیوال جیل ،ہتھکڑیوں جولانوں کی چھن چھن سے ون یونٹ توڑ دو کے پاک ترانے گارہا تھا۔
ہمیں اپنی عام روز مرہ گفتگو میں اس معاملے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے ۔آج جو شخص بھی اِس ملک کے لیے صرف ، ’’ایک ‘‘قومی زبان، یا ’’ایک ‘‘قومی ثقافت کا لفظ استعمال کرتا ہے وہ دراصل ملک کی فیڈرٹینگ یونٹس کو ملیامیٹ کررہا ہوتا ہے ۔ پھر ایک اور لفظ تو انتہائی تذلیل کرنے والا اور درندہ لفظ ہے : ’’علاقائی زبان ‘‘۔ اِس گھٹیا لفظ کا استعمال ،ایک گھناؤنا جرم ہے جو پاکستانی زبانوں کی بہت بے عزتی ہے۔پنجابی علاقائی نہیں پورے برصغیر کی زبان ہے ۔ بلوچی علاقائی نہیں چا ر ملکوں کی زبان ہے ۔ پشتو ایک نہیں دو ملکوں کی زبان ہے ۔ چنانچہ دوستو، آئندہ جو کوئی بھی آپ کے سامنے ہماری زبانوں کو علاقائی زبان کہے اُس کے پیٹ کو قولنجی درد کی بددعا دے دو۔
خواتین وحضرات ۔ قو می یک جہتی کاایک راستہ ہے ۔ وہ یہ کہ اس ملک میں موجود تمام ثقافتوں اور زبانوں کو ترقی کی بے پایاں سہولتیں حاصل ہوں۔ ایک زبان کو کبھی یہ موقع نہیں دینا چاہیے کہ وہ دوسری زبان کو کہنی مار کر اور اپنی ترقی کے جہداں قدموں کی گردمیں دفن کرنے کی کوشش کرے۔ زبانوں کے بیچ جمہوری تعلقات کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔زبانیں نہ تو فرمائشوں کے ذریعے دوسری زبانوں سے تعلقات بناتی ہیں اور نہ رکاوٹوں پابندیوں کے ذریعے دوستیاں بنانے سے رک سکتی ہیں۔ ایک زبان اپنے اڑوس پڑ وس کی زبانوں کی بہتر ین سہیلی ہوتی ہے، برابر والی ، شان و وقار والی سہیلی۔
آپ کلچر لی فوت اُس وقت ہوں گے جب عالم لوہار آپ کے البم میں نہ رہے گا۔ جب پشتون کے رباب کو آرکسٹر ا میں شامل نہ ہونے دیا جائے گا وہی دن آپ کے پورے کلچر کی وفات کا دن ہوگا۔بیرونی ثقافت آپ کو تب نگل لے گی جب آپ ہو جمالو گانا بند کریں گے ،اُس دن کلچر ل بربادی آنی یقینی ہوجائے گی جب یہاں کی فضاؤں سے ’’وش ملّے ‘‘کا رقص بھرا گانا غائب ہوگا۔ یہ بھی ہے کہ جس دن آپ کے کلچرل آسمان پہ عورتوں کی فعال اور تخلیقی موجودگی ختم یا کم ہوگی سمجھو آپ کی موت واقع ہوچکی۔ اور جس روز آپ نے اپنے نوجوانوں کو کلچر کے تحفظ ، منتقلی اور ترقی کا سٹیک ہولڈر سمجھنا بند کردیا وہی دن آپ کے ثقافتی غلامی کے مسودے پر دستخط کرنے کا دن ہوگا۔ مختصر یہ کہ جس دن پاکستان کو حاصل سب سے بڑی نعمت یعنی اس کی diversityخطرے میں ڈال دی گئی ،سمجھو اس ملک کی سا لمیت خطرے میں پڑ گئی ۔
خواتین وحضرات ! ۔ایک اور غلط تصور کو مٹا دینا بھی ضروری ہے ۔ آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ ہم آپ میں ایک اور غیر مستحسن فطرت موجود ہے ۔ ہم آپسی تعلق بنانے میں ہمیشہ انتہا پسند ہیں۔ دشمنی میں ہمارا قہر بے پایاں ہوتا ہے ، اور دوستی میں ہمارا مہر نا قابل برداشت ہوتا ہے ۔ ہم یا تو آپس میں تلواروں کی نوک سے بات کرتے ہیں یا پھر ’’تو شدم اورمن شدی ‘‘کی انتہا والاپیار کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے ۔زبانوں کے آپسی لین دین کا مطلب زبانوں کا انضمام ہر گز نہیں ہے ۔پنجابی زبان بلو چی نہیں بن سکتی اورپشتو کو سندھی نہیں بننا چاہیے۔ہماری زبانوں کو تو ان اچھے پڑوسیوں کی طرح ہونا چاہیے کہ جس گھر میں اچھا پکے درمیانی دیوار کے اوپر سے پڑوسنوں کے مقدس ہاتھوں کا لین دین جاری رہے۔
ایک اور حوالے سے بھی ہمارے ملک میں دوا نتہائیں رہی ہیں۔ ہم یا تو اپنی زبان و ثقافت کو خالص رکھنے کی تحریک چلارہے ہوتے ہیںیا پھر دوسری انتہا پر،پینڈ و اور پسماندہ سمجھ کر اُسے بالکل ترک کردینے کی خواہش کرتے ہیں۔ بھئی یہ خالصی بے خالصی کا دعوی تو انتہائی نامعقول دعوی ہے ۔ کوئی بھی زبان اور ثقافت یہ دعویٰ نہیں کرسکتی کہ وہ محض اپنے رہنے والوں کے اٹھنے بیٹھنے کا نتیجہ ہے اور اس نے آس پاس سے کوئی اثر نہ لیا۔ زبان و ثقافت کا قدیم‘ ہمہ وقت جدید ہوتا جا تا ہے ۔ ناتواں عناصر نوزائیدہ کو جگہ دیتے دیتے خود فوت ہوتے جاتے ہیں۔یہی تو وہ خاصیت ہے جو کسی کلچر کو مرنے نہیں دیتی۔خود عوام کو دیکھیے ، وہ تو اِن چکروں میں نہیں پڑتے۔ ذرا قریبی بکری منڈی جاکر عوام کی زبان توسنیں ۔ اپنی مادری قومی زبان بولتے بولتے وہ ایک فقرے میں انگلش ، اور اردو کے کئی الفاظ ڈالتا جاتا ہے۔ دانشور کے برعکس عوام آزادانہ طور پر ثقافتی لسانی لین دین کرتے رہتے ہیں۔ چنانچہ ،ترقی کے مظاہر کو رد کرکے خالصی کے نام پہ ماضی کے احیا کا نعرہ لگا نا انسان د شمنی ہے۔
اسی طرح اپنی ثقافت اوراپنی زبان کو یکسر مسترد کرکے ،دوسرے کے تلوے چاٹنا بدترین غلامی ہے ۔ ویسے بھی ثقافتوں کے اندر، دوسرے لسانی ثقافتی مظاہر کو خوش آمدیدکہنے کی بڑی گنجائش ہوتی ہے ۔کلچر خواہ معاصر ہو یا روایتی ، اس کے اندر ترقی کرتے رہنے کی شدید امنگ موجود رہتی ہے ۔
پہلے بھی ایسا تھا، مگر آج تو بالکل ایسا ہے کہ ٹکنالوجی اب نواب ،سردار اور چودھری کی فرمائش پہ آمدو رفت نہیں کرتی۔ نہ ہی یہ دانشور کی مرضی سے اپنا ڈوز کم یا زیادہ کرنے کی محتاج ہے ۔
یہ بات درست ہے کہ سائنس اور ٹکنالوجی کی زبان اور ثقافت ،وحشی کیپٹلزم کے ذریعے ہم تک آرہی ہے۔ملٹی نیشنل کمپنیاں گردنیں دبوچ دبوچ کرسماجوں کواپنے قالب میں ڈھا لتی جاتی ہیں۔ کارپوریٹ دنیاابھی بہت کچھ کرے گی۔ ٹکنالوجی ابھی بہت کرتب دکھائے گی۔ بس، سب سے’’ فٹ ‘‘ہی بقا پائے گا۔۔۔۔۔۔۔ اور سب سے فٹ وہ ہوگا جوچوکھاٹ تو اپنی رکھے گا مگر سائنس و ٹکنالوجی کو روح میں جذب کرنے کے لیے کھڑ کیاں روشن دان ہمہ وقت کھلی رکھے گا۔ ہماری زبانوں ثقافتوں کو خود میں اتنی جان اور صلاحیت پیدا کرنی ہوگی کہ وہ ضروری اور غیر ضروری کی تمیز کرکے، ضروری کا استقبال کریں اور نقصان دہ کو چھانٹ کر نہ اپنانے کی تدابیر کریں۔
مگر جو مزیدار بات ہے وہ یہ ہے کہ نیا دورجوبھی اچھی چیز یں لارہا ہے اُن میں زبان وثقافت کے بارے میں ہر طرح کے شاونزم کی شکست کا اعلان شامل ہے ۔پدرم سلطان بود والا فقرہ آؤٹ آف کورس ہوچکا ہے ۔اکیسویں صدی اُن سب لوگوں کے لیے شکست کا پیغام لارہی ہے جنہوں نے برتری و نورانیت و روحانیت و خالصیت کے شیش محل بنانے چاہے تھے، اور اُسی شیش محل سے سنگزار بلوچستان کی سنگین گردن کو دبوچے رہے تھے۔ ہمیں توسیع پسند شا ونزم اور کلچر کو منجمد رکھنے والوں کی اس شکست کو خوش آمدید کہنا چاہیے ۔ ہم ان کی مزید شکستیں دیکھیں گے۔
خواتین وحضرات ! حکمران سبب ہیں یا حل ، مگر یہ بات سچ ہے کہ ہماراسماج سخت خطرات میں گھراہوا ہے ۔ ایسے بدبخت سکراتی خطرات جو نہ ٹل رہے ہیں اور نہ ہی مر رہے ہیں ۔ اور یہ خطرات نہ تو حادثاتی ہیں، اورنہ ہی عارضی ہیں۔ ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ پندرھویں صدی سے لے کر آج تک ،ہمارے سماج کو مسلسل پند رہ ماہ بھی چین کے نصیب نہیں ہوئے۔ فطری خطرات کے خلاف تو ساری انسانیت لڑ رہی ہے ہم بھی جدوجہد کر رہے ہیں۔ مگر ہمارا سماج تو اضافی جھمیلوں کا شکار بھی ہے۔ ہمارا سمندر،اُس کی معدنی دولت اور جغرافیائی لوکیشن دورو نزدیک کے چیلوں کرگسوں کو کھینچ کھینچ کر ہم پہ حملہ کراتی ہیں۔اورسرد جنگ اصل میں تو یہاں، ہمارے خطے میں لڑی گئی ۔ فیوڈل سیاستدان کی ، حیا کی لکنت سے مبرا زبان جو مرضی اصطلاحات گھڑلے مگر سچی بات یہ ہے کہ ہم حتمی طور پرآج کیپیٹلزم کے ساتھ نتھی ہیں۔ اور اسی سرمایہ داری نظام کے تضادات کا شکار ہیں۔ہماراپورا سماج ہمہ وقت بھو نچال زدگی میں ہے۔اور اس بھونچا ل کا سب سے بڑا نشانہ ہماری زبا ن اور ثقافت ہوتے ہیں۔ ہر نئی ایجاد الفاظ کا پورا بریگیڈ ہماری زبانوں کی تھالی میں لاپٹختی ہے ۔ ہر نئی ٹکنالوجی ہمارا لباس اور وضع قطع تو کیا ہمارے جسمانی ساخت میں تبدیلیاں لاگو کرتی جاتی ہے ۔
تو پھر کیا کیا جائے؟۔ دنیا کی قدیم تر ین تہذیب کو قر بان کر دیا جائے؟ ۔اپنے وسیع ذخیر ہ الفاظ سے دستبردارہوا جائے؟ ۔صد یوں کے مشاہدات وتجربات سے سینچے گئے محاوروں اور ضر ب لامثال سے لا دعوی ہوا جائے؟ ۔مظبوط کلچر ل بنیادوں پہ کھڑی کسی ایک زبان کا اس لئے بلیدان دیاجائے کہ اُسے امروزکا انفراسٹر کچرمیسر نہیں؟۔نہیں ۔ آپ پریشان نہ ہوں ۔تیسری دنیا میں عوام نہیں ،حکومتیں پسماندہ ہیں ۔ اسی لیے عوام کے کلچر کو کوئی خطرہ نہیں ،حکومتی پسماندہ کلچرے میں ہے ۔ خطرہ ہے جاگیرداری طُرہ کلچر کو، خطرہ ہے سردار کے باڈی گاڑوں بھری پجارو کلچر کو ، عورتوں کوکاروکاری کے بہانے غلام رکھنے والے پدرسری کو۔ عوامی کلچر تو جشن منائے کہ اُسے ترقی کے بے شمار متبادل میسر ہوئے ہیں۔ اب محض ٹرسٹ کے اخبارات اور سرکاری ریڈیو کی اجارہ داری نہیں ہے ۔اب انفارمیشن ٹکنالوجی کے عطا کردہ بے شمار ذرائع موجود ہیں جہاں ہماری عوامی ثقافتیں اپنی بقا اور ترقی کے مواقع دیکھ سکتی ہیں۔آٹو موبیل، سپیس ٹکنالوجی ، الیکٹرانکس، انٹرنیٹ اور موبائل فون نے ہماری دنیا بدل کے رکھ دی ۔ہمیں ڈراؤمت ۔ایسی سائنسی دنیا میں ،ثقافتوں کی معدومیت کا مفروضہ اب باقی نہ رہے گا۔
دوستو!
جس طرح آج کی ہماری زبا نیں اور ثقافتیں وہ نہیں جو پندرھویں صدی میں ہوا کرتی تھی ،اسی طرح یہ وہ بھی نہیں رہیں گی جو آج اکیسویں صدی میں ہیں ۔ قدامت کے مارے فاسل شدہ اذہان سمجھ ہی نہیں پارہے کہ کلچر کوئی فطری اور پیدائشی صفت نہیں ہے ۔ یہ تو ارادی اور تخلیقی عمل ہے ۔یہ یکایک وجود میں نہیں آتا۔ صدیوں کے پرایس کے دوران گروہ اور قبیلے دوسرے گروہ اور قبیلوں سے لسانی ،نسلی ،فکری یا جغرافیائی اشتراک ولین دین کرتے رہتے ہیں۔یہ ثقافتوں کے اندر کی ایک زندگی بخش، اِن بلٹ خصوصیت ہے۔ بدبخت ہے جو اسے اس زبردست خصوصیت سے محروم کرنے کی کوشش کرے۔
ایک اور اہم موضوع کے بارے میں بھی بات ہونی چاہیے ۔وہ یہ کہ دنیا کے ارتقا ، اس میں موجود فکری اختلاط اور سماجی معا شی سیاسی انقلابات میں متر جمین اور کلچر ل سفیروں نے ایک اہم کرداراداکیا ۔غور کیجئے تراجم نہ ہوتے تو کوانٹم تھیوری کا کیا بنتا؟ ،بگ بینک اور بلیک ہولز کے بارے میں معلومات کہا ں سے میسر ہوتیں؟۔جنیٹکس صحرا ؤ ں سمندروں میں پیا س سے نہ مر جاتا ؟۔ انسان ایک ٹکنالو جیکل جاندار ہے ۔اور سائنس اُس کی سب سے بڑی مصروفیت ہے۔ سائنس کا کلچر اور مزاج اجتماعیت والے ہیں، تعاونی ہیں،اور ابلاغی ہیں۔ ترجمہ ہر سائنسی سماجی تحقیق اور اس کے نتائج کو مقامیاتا ہے۔ کسی بھی نعرے اور بہانے سے فلسفہ ، سیا ست اور سا ئنسی تحقیقات کے نتا ئج کو خارجی رکھنا انسانیت کے خلاف جر م ہوتا ہے۔ یا د رکھیے سائنس قو می نہیں ہو تی ، اب تو ٹکنا لوجی بھی قو می نہیں رہی۔سارے علم اور علمی مظاہر سا رے انسا نو ں کی میراث ہیں۔ بلو چی تھیر یم میرا ہے،مگر یہ عالمی بھی ہے، ، مہر گڑ ھ اور ہڑپہ کے آثا رہمارے ہیں مگر اُن سے اخد شدہ نتا ئج اور سا ئنسی علم ہمارے ہی نہیں بین الاقوامی بھی ہیں۔ شنگھائی کا دنیا کا جدید ترین شہر چینیوں کا ہے مگر وہاں نت نئے تجربے اور اسباق کُل لولاک کی ملکیت ہیں۔
چنانچہ خواتین وحضرات! ایکسچینج ٹرانسفیوژن محض علاج نہیں ہے، یہ ہماری نئی دنیا کی فزیالوجی کا حصہ بن چکا ہے۔ زبان وثقافت کو نئے نئے عناصر سے مالا مال ہوتے رہنا چاہیے۔ زبان وثقافت میں وسعت کو کبھی بریک نہیں لگتی ۔کلچرل ایکسچینچ ہمیں اورہماری زبانوں کو کمزور نہیں بناتا بلکہ انہیں سائنس، آرٹ اور کلچر کی ترجمانی کے لیے قوی بناتا ہے ۔انھیں لپکنے جھپٹنے کے لیے لچکدار بناتے ہیں۔ یہ بھی دیکھیے کہ ثقافتی درامدات کبھی بھی محض فوٹو سٹیٹ نہیں ہوتیں ۔ یہ آپ کی تخلیقیت کو ورزش کر اکر ، تنو مند بنا کر ایک اور وارئٹی پیدا کراتی ہیں ۔اُ س کی زند گی کو طو یل بنا تی ہیں۔
خواتین وحضرات ۔ اب میں آپ کی توجہ ایک بہت ہی ضروری بات پہ مبذول کرنا چاہتا ہوں ۔ حالیہ برسوں میں دانشوروں پہ ایک اور بڑی ذمہ داری آن پڑی ہے۔ اب کلچر، تعلیم ، صحت ، زراعت ، صنعت اور دیگر بے شمار شعبے وفاق کے پاس نہیں بلکہ صوبوں کو منتقل ہوچکے ہیں۔باقاعدہ آئین میں ترمیم کر کے ایسا ہوا ہے ۔ اور اس بات کو چھ آٹھ سال ہوگئے ہیں۔مگر کسی بھی صوبے میں ابھی تک اِن شعبوں کے لیے پالیسیاں تک نہیں بنی ہیں۔ یہ محض غفلت نہیں ہے ۔ یہ تباہ کن لاپرواہی ہے ۔ ہم سب لوگ اپنی اپنی محرومیوں پس ماندگیوں کا ذمہ دار وفاقی حکومت کو قرار دینے کے عادی رہے ہیں۔ اب پیراڈائم ہی بدل چکا ہے ۔ بالخصوص سندھ اور بلوچستان کے دانشوروں کو اب اپنی صوبائی حکومتوں کے سامنے صف آرا ہونا پڑ رہا ہے ۔ اب ہمیں اپنی اپنی صوبائی حکومتوں پہ زور دینا ہوگا کہ آرٹ اور ایجوکیشن ہی ، ہمیں انسانی حدود میں رکھتے ہیں۔یہ ایجوکیشن مادری زبانوں میں ہو اور سائنسی ہو ۔صوبائی حاکموں کو قائل کرنا ہوگا کہ صوبوں میںآرٹ گیلریوں کا قیام ضروری ہے ۔اور یہ بھی کہ ہمارے بچوں کو آرٹس کی تاریخ پڑھانا انہیں انسان بنانے کے مترادف ہوگا۔
اسی طرح اس ملک میں بے شمار آرکیالوجیکل سائٹس ہیں۔اُن کا تحفظ اہم ترین اور فوری فریضہ ہے ۔ خزانہ کی تلاش تو پرانا قصہ ہوچکا۔اب تو یہ ہورہا ہے کہ آرکیالوجسٹ جس ملائمت سے، اورسالوں تک اپنے پلکوں سے ، زمین کو محض کھجانے کی حد تک کھودتے رہتے ہیں، ہمارے کاشتکار اُسی بے بہا اور ثقافتی تاریخی خزانوں سے بھری زمین پہ بلڈوزر چلا چلا کر، وہاں کی مٹی پالک او رمولی کے کھیتوں کے کھاد کے بطور لے جارہے ہیں۔ اِن سائٹس پہ توریسرچ سنٹر، اورآڈیووژوئل سہولتوں سے مسجع ٹیچنگ اور گائیڈ نگ کی سہولتیں میسر ہوں۔صوبائی حکومتوں کو سمجھانا ہوگا کہ مہرگڑھ، موہن جو دڑو، اور ہڑپہ کی حفاظت صرف اپنے صوبوں اور پاکستان کے لیے ضروری نہیں بلکہ یہ کل جہان کے مشترکہ کلچرل میراث ہیں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ مائتھالوجی کے عظیم ترین مراکز ہمارے ملک میں موجود ہیں۔ عملی طور پر ،ہر صوبے میں ایک ہنگلاج موجود ہے ۔اب تک تو عام آدمی بڑے بڑے مذاہب کے اِن سرچشمہ مقامات کی حفاظت کرتے چلے آئے ۔مگر اکیسویں صدی میں یہ کام ایک منظم ریاست کا ہوتا ہے ۔اب صوبائی حکومتوں کو مجبور کیا جائے کہ مائتھالوجیکل مقامات کی حفاظت اور وہاں زائرین کو تمام ضروری سہولتیں مہیا ہوں۔
جنگلی اور سمندری حیات دنیاوی فوائد کے علاوہ حسن و دلکشی کا ایسا سامان ہیں کہ جنہیں شکاریوں کے حوالے نہیں کیا جاسکتا ۔ غزل اور غزال سب ادب سے اٹھ جائے گا ، اگر آپ کے بچے آہو اور فاختہ ، کنجشک اور شاہین سے ناواقف رہیں گے ۔ تو اندازہ کیجئے کیا پُھسپھسا ادب ہوگا مستقبل کا ۔
اُدھرساحلی اور سیاحتی مناظر اس قدر دیدہ زیب ہیں کہ پوری دنیا کے سیاحوں کا رخ یہاں موڑا جاسکتا ہے ۔دنیا میں پرنسس آف ہوپ ایک ہی ہے اور اُس کے مالک آپ ہیں۔
محنت کش عورت کی پاک تخلیقی انگلیوں کی برکت سے کشیدہ کاری اور قالین بافی میں ہم دنیا کی سربراہی کرنے والا ملک ہیں، ہمیں اپنی یہ حیثیت بالکل کھودینی نہیں چاہیے ۔ہماری صوبائی حکومتوں کو اِن عورتوں کو مشینی سہولتیں دینی ہوں گی۔ اُن کے حالات کار بہتر کرنے ہوں گے۔اور اُن کے پراڈکٹس کی مارکٹنگ کرنی ہوگی۔
اور سب سے اہم یہ کہ ہمارے آرٹسٹوں ، دستکاروں ، محنت کشوں اور اکیڈمیشنوں کواعلیٰ ترین انسانی سہولتیں فراہم ہوں۔ ان کے پاس اکیڈمیاں ہوں ۔ اُن کی تخلیقات کی تشہیرو ترسیل کے مواقع ہوں اور انہیں بڑے پیمانے پہ ملنے اور مباحث و تبادلہِ خیالات وتجربات کی سہولت میسر ہو۔ اُن کے نام کی شاہراہیں ،عمارتیں ہوں، اُن کے نام کے میوزیم اور لائبریریاں ہوں ۔ اُن کے نام پہ ڈاک ٹکٹیں ہوں۔
اٹھارویں ترمیم کے بعد ایک اور کام اب ہمیں وفاقی نہیں بلکہ صوبائی حکومتوں سے کرانا ہوگا۔ وہ یہ کہ بلاشبہ وہ اپنے صوبے میں اکثریتی زبان کو سرکاری زبان بنادیں مگر وہاں بسنے والی دوسری قوموں کی ثقافت اور زبان کی ترقی کو کبھی نظر انداز نہ کریں۔ ہمیں اپنے اپنے صوبے میں یہ بات زور دے کر کرنی ہوگی کہ تنوع اختلاف نہیں ہوتا۔
یہ ساری لڑائی ادیب دانشور کی ہے ۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ صوبائی حکومتیں غیرت وروایت کے بارے میں زیادہ پسماندہ ہیں، وہ حکومتیں شاید مکمل طور پر عوام کا انتخاب بھی نہیں ہیں، یہ بھی کہ نظام ایسا ہے کہ حکومتیں عوامی بجٹ چاٹتی رہیں ، خود سیاست کو کارِ گناہ ثابت کرتے رہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ ریاستی ڈھانچہ ایسا ہے کہ سارے اہلکار کرم خوردہ ذہن والے ہیں، رشوت زدہ جیبوں کے مالک ہیں۔
مگر اِن سب حقیقتوں کے باوجود یہ لڑائی ادیب ودانشور کو لڑنی ہے اس لیے کہ گلستانِ ثقافت کے رکھوالے آپ لوگ ہو ۔آپ ،جو سنگ و وحشت کے بیچ شیشہ گری کرتے رہنے کے لیے زمیں پہ اتارے گئے ہو۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے