ڈاکٹر صاحب اپنا ماہِ پیدائش اپریل بتاتا تھا۔ سال تھا1920۔ وہ قوم میں گنڈہ پور تھا۔ جو دراصل ڈیرہ اسماعیل خان کے گردونواح کے باشندے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کادادا زندگی بھرمذہبی اور درویشی کی تعلیم کے پیچھے پیچھے بھاگتا رہاتھا۔ کبھی غزنی،کبھی کہاں ‘ کبھی کہاں ۔یوں وہ بالآخر قندھار جاکر ٹک کیا۔ یہ لوگ سید محمد گیسودراز کی آل اولاد ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کا والد‘ صاحب داد‘ اچھا بڑا عالم دین تھا۔ اُسے علوم کے بارے میں بھی اچھی خاصی شُدبد تھی۔ مولوی ہوتے ہوئے بھی وہ ملاّؤں کے سخت خلاف تھا۔ اس کی باتیں بڑی میٹھی اور مدلل ہوتی تھیں۔ مزاح کی حس بہت ہی اچھی تھی۔
اُس زمانے میں گلستان کے خوانین کا اکثر قندھار آنا جانا ہوتا تھا۔ ان خوانین کو’’ اخوند صاحب ‘‘بہت اچھا لگا۔ اس لیے وہ اس کی محفل میں ضرور جاتے۔ اور یہ دوستی بڑھتے بڑھتے اس حد تک پہنچی کہ بالآخر وہ لوگ اُسے‘قندھار کو خیر باد کہہ کر گلستان میں آن بسنے پر قائل کرگئے۔
چنانچہ صاحب داد اپنے دو بھائیوں کو قندھار میں چھوڑ کر خود گلستان منتقل ہوگیا۔ مگر اس نے خوانین سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ وہ پیشہ ور ملا نہیں بنے گا۔ اُسے زمینوں پہ کاشتکاری کرکے اپنی روزی خود کمانے دی جائے۔ اس لیے کہ اس کا فرمان تھا کہ جو شخص زکوٰۃ کھالے‘اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔
چنانچہ گلستان میں اس کے ہاں محفل لگتی اور وہیں احاطے میں کھڑے ہوکر نماز پڑھی جاتی اور اخوندصاحب ہی امامت کرتا۔ اس زمانے میں گلستان کے علاقے میں دو ہی بڑے عالم ہوا کرتے تھے ایک ڈاکٹر صاحب کا والد صاحبؔ داد،اور دوسرا مولوی عبدالسلام عشے زئی۔
اپنے والد کے نام ’’ صاحب‘ ‘کو بعد میں ڈاکٹر صاحب نے اپنے نام کے ساتھ اچھی طرح جوڑ دیا ۔ یعنی خدائیداد صاحبی۔ اُسی طرح جس طرح عبدالحئی نے اپنے والدکے نام حبیب کو اپنے کے ساتھ ملا کر عبدالحئی حبیبی بنادیا تھا۔
اخوند صاحب کی پہلی بیوی گنڈہ پور قبیلے سے تھی۔ اُس سے ایک بیٹا تھا اور چار بیٹیاں ہوئیں۔ وہ جب فوت ہوگئی تو اخوند صاحب نے دوسری شادی قندھار کے فارسی بانوں میں کی ۔ اس خاتون سے چار بیٹے پیدا ہوئے۔ بیٹی کوئی نہ تھی۔ ڈاکٹر صاحب سے ایک بھائی چھوٹاتھا۔ یعنی وہ تیسرا بیٹا تھا۔والدہ ہی نے ڈاکٹر صاحب کو قرآن پڑھایا اور دوسری ابتدائی تعلیم دلوائی۔ حافظ‘رومی اور سعدی اس کے بڑے بھائی نے اس کو پڑھائے۔اور اسی علم کے توسط سے اسے انسان دوستی سکھائی۔
اسی اچھے بھائی ہی کی بدولت ڈاکٹر صاحب میٹرک تک پہنچ گیا تھا اور اسی کے پیار ‘توجہ ‘اور محنت کا نتیجہ تھا کہ خدائیداد جیسے انسان نے پرورش پائی ۔ اُس اچھے انسان کا نام مولا داد تھا۔ بقول عبداللہ جان جمالدینی ‘ ’’مولا داد بہت ہی سلجھاہوا اور شائستہ انسان تھا‘‘۔
ڈاکٹر صاحب کا ایک اور بھائی خدائے رحیم تھا۔ یہ دونوں بھائی کافی دیر تک زندہ رہے۔
ڈاکٹر خدائیداداپنے بارے میں بولنے سے ایسے بھاگتا تھا جس طرح ہندو گائے کا گوشت کھانے سے بِد کے ۔جیسے بلوچ عورت اپنے خاوند کا نام لینے سے کترائے‘ جیسے سرکار ’’ زرعی اصلاحات‘‘ کا لفظ کہنے سے جی چرائے ‘ جیسے قوم پرست سیاست دان طبقات کا نام سننے سے دو ر بھاگیں ۔
ایک بار جب میں اور وہ اکٹھے ٹرین سے پنجاب جارہے تھے تو میں اس کا اچھا خاصا انٹرویو لینے میں کامیاب ہوا تھا۔ مگر یہ انٹرویو مکمل نہ ہوا اس لئے کہ سبی کوئٹہ کے درمیان آخری سرنگوں میں سے ایک کی تاریکی میں اُس نے میرے چھوٹے سے ٹیپ ریکارڈ کا جلتا ہوا چھوٹا سا سرخ بلب تاڑ لیا ۔ اور خود کو برا بھلا کہتے ہوئے موضوع بدل دیا۔
ڈاکٹر خدائیداد نے سکول کی تعلیم پشین میں پائی۔ وہاں اُس زمانے میں ثنا تن دھرم ہائی سکول‘ خالصہ سکول‘ اور اے وی ہائی سکول مشہور ہوا کرتے تھے۔ مگر خدائیداد سنڈیمن ہائی سکول میں تھا۔ اس لیے کہ اس میں فیس نہیں ہوتی تھی۔ پیسے والے لوگ کوئٹہ جایا کرتے تھے اور غریب غربا پشین کے اس ہائی سکول میں تھے۔ مگر بعد میں جب اُس کے سکول نے بھی ایک روپیہ فیس رکھ دی تو سٹوڈنٹس نے ہڑتال کردی۔ لیڈر کون؟لیڈر خدائیداد خان ۔ وہ بعدمیں ہڑتالوں اور ٹریڈ یونین ازم کا سپیشلسٹ بن گیا تھا۔ اسی سکول میں عبدللہ جان جمالدینی اور سائیں کمال خان شیرانی اُس کے جونیئر سکول فیلو تھے۔
۔1939ء کو سائیں کمال خان نے تعلیم کے حصول کے لیے ژوب کی واد ی سے نکل کر وادئ پشنج کا رخ کیاجہاں تقدیر اُسے عبداللہ جان جمالدینی سے ملادیتی ہے، کلاس فیلو کی حیثیت سے۔ اور خدائیداد سے جونیئر کی حیثیت سے۔ ان تینوں کو پھر زندگی بھر ساتھ رہنا تھا۔ جمالدینی اُن دونوں کی طرح سرو اور چلغوزوں کے جنگلات کی سرزمین کا باسی نہ تھا بلکہ وہ ریگ و ریگستان کے وطن نوشکی سے متعلق تھا۔ فطرت نے یہیں اس تکون کی تکمیل کردی جس نے اس منطقے میں زبردست کردار ادا کرنا تھا۔ ان میں سے سینئر تھا خدائیداد خان صاحبی آف گلستان۔
یہ تینوں دوست یہیں اکٹھے رہے‘اورسکالر شپ والی تعلیم پائی۔ خدائیداد کا گھر چونکہ پشین میں نہیں گلستان میں تھا۔ اس لیے وہ یہاں ہاسٹل میں رہتا تھا۔
خدائیداد خان اسی سکول کے زمانے میں خاکسار تحریک کے ساتھ جڑ گیا۔ خاکسار پریڈ کے ساتھ‘سکاؤٹ یونیفارم پہنا‘ بیلچہ اُٹھایا اور چل پڑا۔ کچھ اور لڑکے بھی تھے۔ سرکار نے سب کو پکڑ لیا اور شمولیت کی وضاحت مانگی۔ڈاکٹر صاحب کے سارے ساتھیوں نے اپنے جواب میں لکھا’’ معافی‘‘۔ مگر میرے اس بزرگ ساتھی نے اپنے جواب میں لکھا’’ یہ ہمارا مذہبی معاملہ ہے اور اس میں ہم کو وضاحتیں دینے کی کوئی ضرورت نہیں‘‘۔
اس کے سکول میں چھوٹے قد کا ایک ٹیچرتھا۔ آرٹسٹ خدائیداد نے بلیک بورڈ پر اس کا کارٹون بنا ڈالا۔ اس کارٹون کے سلسلے میں تین دلچسپ باتیں ہوئیں: ایک تویہ کہ جب ماسٹر کلاس میں داخل ہوا تو ایک ایک سے پوچھنے لگا کہ یہ کارٹون کس نے بنایا۔ مگر اس نے ڈاکٹر صاحب سے نہیں پوچھا ۔ تب یہ خدائی خدمت گار خود کھڑا ہوگیا۔ انا جو مجروح ہوگئی تھی!۔ اس نے ماسٹر صاحب سے سوال کیا کہ ’’آپ مجھ سے کیوں نہیں پوچھ رہے ؟۔ یہ کارٹون میں نے ہی بنایا ہے ‘‘۔ ماسٹر بے چارہ خود کچھ نہ بولا ۔ حیران و ششدر ، اُسے ہیڈ ماسٹر کے پاس لے گیا ۔دوسری دلچسپ بات یہ ہوئی کہ ہیڈ ماسٹر نے اس پر ڈنڈے برسانے شروع کر دیے ۔ اس بات پہ نہیں کہ اس نے استاد کا کارٹون کیوں بنایا بلکہ اس بات پر کہ ’’ اس نے کارٹون بنا کر سکول کا چاک ضائع کیا ہے ‘‘۔ اور تیسری دلچسپ بات یہ ہوئی کہ ڈنڈے کھاتے کھاتے اُس نے اچانک ہیڈ ماسٹر کا ڈنڈا پکڑ لیا ’’ مت مارو ، کس واسطے مارتے ہو ؟‘‘۔ (کاش کہ سماج میں آج بھی کوئی حاکم کا ڈنڈا پکڑ کر بولے ’’ مت مارو ، کس واسطے مارتے ہو ؟‘‘)۔
خدائیدا نے 1940ء میں میٹرک کر لیا ۔ میٹرک کر کے وہ فوج میں بھرتی ہوگیا ۔یہ دوسری عالمی جنگ کا زمانہ تھا اور فوج میں بھرتی جلدی مل جاتی تھی ۔ اسے آبزرور کور میں لیا گیا ۔ یہ ائیر فورس کے ساتھ منسلک گراؤنڈ فورس تھی ۔ اور اُس کا کام تھا جہازوں کا پتہ لگانا ، اورانہیں کنٹرول کرنا ۔ وہ دو سال تک اس کے ساتھ رہا ۔ اور جب وہ کور ٹوٹ گیا تو خدائید اد خان کو سگنل کور میں ڈال دیا گیا ۔
فوجی ملازمت کے زمانے میں اُس نے برصغیر پورے کاپورا دیکھ لیا ۔ ہندوستان ، برما ، ایران۔۔۔۔۔۔ مختلف انسانوں سے ،زبانوں ، مذاہب ،نسلوں اور تہذیبوں سے بھر پور شناسائی پیدا کی ، کئی ہنر سیکھے ، کئی خیالات سے واسطہ پڑا ۔ حتیٰ کہ ایران میں پیٹرول سے غسل کرتے رہنے کے تجربات بھی کئے ۔ جہاں پانی کم یاب تھا۔ اور پیٹرول بسیار ۔
اُس کے وقت سگنل کا کمانڈنٹ، میجر پراؤ ڈلاک تھا ۔ چونکہ ڈاکٹر صاحب ایک دن پریڈ سے بھاگ گیا ۔ بابو لوگوں کو پریڈ معاف ہوا کرتی تھی ۔ وہ پریڈ چھوڑ کر اُن کے دفترچلاگیا ۔ بابو لوگ بیٹھے تھے ۔ ان کی میز پر آل انڈیا ریڈیو کا میگزین ’’ آواز‘‘ پڑا ہوا تھا ۔ جس پہ گاندھی کی تصویر تھی ۔ خدائید ادنے وہ فوٹو انہیں دکھائی اور جا کر اُن کی دیوار پر لگا کر اس پہ تقریر شروع کر دی ۔ جیسے جلسے میں خطاب کر رہا ہو ۔ میجر کہیں سے آیا ہو گا ۔ کھڑکی میں سے اس کی تقریر سنی اور پھر اندر آیا ۔وہ خدائیداد کو اپنے دفتر لے گیا اور گلے سے پکڑ کر دروازے پر لایا اور اِس زور سے مکا مارا کہ وہ باہر جا گرا ۔ اس کا ایڈ جوٹنٹ آیا اور خدائید سے بغل گیر ہوا ۔ اسے بچا لیا ۔
جیسا کہ ذکر ہوا جنگ کے دوران وہ ہندوستان اور ایران کے کئی علاقوں اور شہروں میں رہا ۔ جنگ کے دوران مختلف شعبوں میں کام کرنے کے سبب اُسے کافی تجربہ ہو گیا تھا ۔ اس کا شغف البتہ ادب و فن کی طرف تھا ۔
فوج کے بعد وہ ٹیلی گراف میں رہا ۔ آفس میں ڈویژنل انجینئر کے ساتھ بابو تھا وہ ۔ وہاں ایک ہندو اکاؤنٹینٹ تھا ، واسومل۔ اس نے ڈاکٹر صاحب کو اکاؤنٹ میں رہنے کا کہا ۔ یعنی کیشیئر اور تنخواہیں دینا اس کا کام ہوا ۔ ان کا ڈویژنل انجینئر ایک انگریز تھا مسٹر مرے ۔ وہ آرمی سے آیا ہوا ، بہت اچھا شخص تھا۔ خدائیداد یہاں 1946ء میں آیا اور 1949 ء تک رہا ۔ یعنی پورے تین سال ۔ پھر یہ نوکری چھوڑ دی ۔ سی آئی ڈی اس کے پیچھے لگی ہوئی تھی ۔ وہ دہلی سے رسالہ منگواتا تھا: ’’سوویت لینڈ‘‘ ۔تین روپے اس کی خریداری فیس تھی ۔ سی آئی ڈی والے اس کے پاس آئے کہ تمہارے پاس غیر ملکی رسالہ آتا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے مذہبی رسالہ ’’Awake‘‘ انہیں دکھایا کہ یہ ہے میرے نام آنے والا رسالہ ۔ مگر انہوں نے کہا یہ نہیں ہے ۔
اُس زمانے میں انجم قزلباش بھی ڈاکخانے میں ملازمت کیا کرتا تھا ۔ بابو گیری وغیرہ ۔ بلوچستان حکومت خدائیداد کے پیچھے پڑ گئی ۔ اس کا افسر ایک اینگلو انڈین تھا ۔ وہ ڈاکٹر صاحب کا بڑا احترام کرتا تھا۔ اس نے اُس سے کہا کہ وہ اسے ’’Loose‘‘ نہیں کرنا چاہتا ۔ مگر حکومت بلوچستان کا لیٹر آیا ہے ۔ وہ اسے بہت تنگ کریں گے ۔ اور چھوڑیں گے نہیں۔ چنانچہ افسر نے اُسے سکھر تبدیل کر دیا جہاں سب ڈویژن تھی ۔ ڈاکٹر صاحب وہاں چلا گیا ۔
گرمی کے دن تھے ۔ وہاں گلستان کے کچھ لوگ رہتے تھے ۔ خدائید ادا نہی کے ساتھ رہنے لگا ۔ پھر وہاں اکبر اچکزئی آ گیا ۔ وہ دونوں اکٹھے گھومنے لگے ۔ خدائیداد اُس وقت کے سکھر کا نقشہ یاد کرتے ہوئے کہتا تھا کہ شام کو جب ہوٹل میں کھانا کھانے گئے تو مچھر اتنے زیادہ تھے کہ آسمان دکھائی نہیں دیتا تھا ۔ سارے مچھر پلیٹ میں گرتے جا رہے تھے ۔ اکبر نے کہا میں آج جا رہا ہوں ۔ خدائیداد پیچھے رہنے والا کب تھا ۔ وہ بھی روانہ ہو گیاس یعنی کچھ دن سکھر رہا مگر پھر بھاگ آیا ۔
یہاں خیر و ترین تحصیلدار تھا ۔ اس کے پاس خدائیداد کی ملاقات میر عبداللہ جان اور سائیں کمال خان سے ہوئی ۔خدائیداد میٹرک سے فارغ ہوا تو اس سے ایک سال بعد اُس کے دو جونیئر ز یعنی عبداللہ جان اور کمال خان اسلامیہ کالج گئے، تعلیم حاصل کی، انقلابی بنے، واپس لوٹے۔ نائب تحصیلدار بنے، پانچ سال بعد عملی سیاست کرنے نوکری چھوڑ دی اور کوئٹہ آکر اپنے خیالات پھیلانے لگے ۔ یہ لوگ پہلے بھی اُس کے دفتر جایا کرتے تھے ۔ واضح رہے کہ یہ دونوں اصحاب ڈاکٹر خدائید اد سے پہلے سیاسی ہو گئے تھے ۔ پھر جب وہ سکھرآ گئے تو رتنا نند کی دکان تھی ۔ یہ لوگ وہیں آ کر بیٹھتے تھے ۔ یہ لوگ سیاسی بحث و مباحثہ کرتے تھے ۔
خدائیدادنے ڈیوٹی ’’Resume‘‘ نہیں کی تھی ۔ آفس نہیں گیا تھا ۔ تین ماہ اسی طرح گزر گئے کہ چٹھی آئی ’’ آ جاؤ ‘ تمہارے تین مہینے ہم ’’ With out pay‘‘ ٹریٹ کریں گے ۔ تمہاری نوکری جاری رہے گی ۔ ڈاکٹر صاحب وہاں گیا تو سہی مگر نوکری کرنے کے بجائے اس نے وہیں استعفیٰ دیا اور حساب کتاب کر کے اپنے بقایا جات وصول کر لیے ۔ واپسی پر عبداللہ جان کے ساتھ بلوچی سٹریٹ پر رہنے لگا۔
یاروں نے خدائیداد کے کسی دوست کی مدد سے مسجد روڈ میں سکھوں، اور ہندوؤں کی خالی کردہ دو دکانیں الاٹ کرائی تھیں ۔ وہاں خدائیداد نے سٹیشنری کی ایک دکان قائم کی جس کا نام کمال خان نے ’’ فی الحال‘‘ سٹیشنری مارٹ رکھا ۔ خدائیداد نے سرخ کپڑے اور سلور پینٹ کے ذریعے ایک بینر اور ایک بورڈ تیار کیا :’’فی الحال سٹیشنری مارٹ، مسجد روڈ ‘‘۔ اس دکان میں وہ صلاح الدین سے سٹیشنری لا کر بیچتا تھا۔ یہاں پر وہ اپنی نظریاتی کتابیں بھی فروخت کرتا تھا ۔ خدائیداد نے اپنی ذاتی کتابیں تک فی الحال سٹیشنری مارٹ کی نذر کر دیں ۔ دوسری دکان جو خالی تھی اس میں اس نے پینٹر کا بورڈ لگا دیا ۔ اور کام کرنے لگا ، پوسٹر ، سائن بورڈ وغیرہ ، جو بھی کام ملتا وہ کرتا ۔
میں نے کوشش کی کہ خدائیداد نے جن الفاظ میں مجھے اپنی جیون کتھا سنائی تھی، ہو بہو اُسی طرح لکھوں ۔(نام نہاد غیر پالیمانی الفاظ ظاہر ہے اڑا دینے ہیں):
’’ اسی زمانے میں ایک فرانسیسی تھاجس کا نام جولیس تھا ۔ اس کی کتابوں کی ایک بڑی دکان ہوا کرتی تھی ۔ جس جگہ پر کبھی فرح ہوٹل تھا وہ دکان اسی میں ہواکرتی تھی ۔ عبدالصمد وہاں ہا کر تھا اخباروں کا ۔ بعد میں اسی عبدالصمد نے چوری کی کتابوں کی ایک دکان سورج گنج بازار میں کھولی ۔ عبدالصمد جب حج کرنے عربستان گیا تو خدائیداد کو سورج گنج بازار میں اخباروں اور کتابوں کی اِس مشہور دکان’’ نیو بک سٹال ‘‘ میں بیٹھنے کا کہا ۔ اس کا بھائی حبیب اللہ اخباروں کاہاکر تھا ۔ ڈاکٹر دکان پربقول اُس کے ’’خدا کے واسطے ‘‘ بیٹھنے لگا ۔ جب وہ حج سے واپس آیا ’’ گناہ بخشوا کر‘‘ توخدائیداد خدا حافظ کہہ کر دوبارہ ’’ فی الحال ‘‘ آیا ۔
’’ فی الحال علم ، عقل اور شعور کا مرکز بنتا رہا ۔ یہ مارکسسٹ لٹریچر منگوانے ، تقسیم کرنے ، دانشوروں اور سیاسی ورکرز کے بحث مباحثہ کرنے اور نتائج اخذ کرنے کا اڈہ بن گیا ۔ لٹ خانہ اور فی الحال ،ایک یو ٹو پیائی ، رومانوی انقلاب کا خوبصورت کمیون سا بن گئے جہاں کالج کے طلباء اور دیگر سیاسی ورکرز آنے جانے لگے ۔ سٹڈی سرکل ٹائپ کے اجتماعات ہونے لگے ‘‘۔

ادبی تنظیم
’’پشتو ٹولی‘‘
۔1949میں جب کوئٹہ میں ترقی پسند مصنفین کی شاخ دوبارہ قائم ہوئی تو عبداللہ جان اور خدائیداد نے بحیثیت بلوچی اور پشتو کے ادیبوں کے اس میٹنگ میں شرکت کی ۔ ان کا پکا ارادہ تھا کہ اس فکر اور نظریہ کو بلوچستان کے ادیبوں میں خوب پھیلائیں گے ۔فیصلہ ہوا کہ بلوچی اور پشتو زبانوں کے ادیبوں کی تنظیمیں قائم کی جائیں۔ چنانچہ بلوچی ادیبوں دانشوروں کی تنظیم کے ساتھ ساتھ خدائیداد کی پہل کاری سے لٹ خانے میں شام کے وقت پشتو ادیبوں کی ایک نشست ہوئی ۔اور طے ہوا کہ’’ پشتو ٹولی‘‘ کے نام سے ادیبوں کو منظم کیا جائے ۔ خدائیدادکو تنظیم کا جنرل سیکرٹری بنا دیا گیا ۔
اس ادبی تنظیم کی تنظیم کاری اور سرگرمیوں کا کام اسی کے ذمہ رہا ۔ اس نے اس کا دستور العمل ترتیب دیا اور پاس کروا کر اُسے چھاپ دیا ۔(آٹھ صفحات پر مشتمل یہ دستور العمل بطور ضمیمہ اس کتاب کے آخر میں موجود ہے)۔ اس پہ تاریخ1952لکھا ہے اور ’’مرتبہ: خدائیداد صاحبی سیکریٹری پشتو ٹولی بلوچستان کوئٹہ‘‘ ۔اِس کا خوبصورت سرورق ہے۔ چار نکاتی اغراض ومقاصد ہیں:
۔1۔ پشتو زبان وادب کی خدمت ،تحفظ اور ترقی
۔2۔ قدیم پشتو ادب کی تلاش اور ادبی تحقیق
۔3۔ خالص پشتو الفاظ ‘ محاورات اور روز مرہ کو دوبارہ رواج دینا
۔4۔ علمی اور ادبی ضرورت کے مطابق نئے الفاظ بنانا۔
۔اِن اغراض ومقاصد کے حصول کے طریقوں میں چھ نکات دیے گئے ہیں:
۔1۔ ممبران ہفتہ وار اجلاس کیا کریں گے ۔اوران اجلاسوں میں پشتو ادب پر نقد اور بتصرہ کریں گے ۔ادیب ممبران اپنے نئے مضامین اور شاعری سنائیں گے اور اس پہ تنقید وتبصرہ ہوگا۔
۔2۔ ’’ٹولی ‘‘کی لائبریری ہوگی جس میں پشتو کتابوں اور پشتو ادب سے متعلق کتابیں ہوں گی ۔اس کے علاوہ دیگر کتابیں ، جرائد اور اخبارات بھی ہوں گے۔
۔3۔ ٹولی کے ممبران اُن پشتو نوں کو لکھنا پڑھنا سکھائیں گے جو ایسا کرنا نہیں جانتے ۔
۔4۔ ٹولی ایک ماہوار پشتو میگزین کا اجرا کرے گی ۔
۔5۔ پشتو کی کتابیں چھاپے گی ۔
۔6۔ ٹولی کے ممبران اُن شاعروں کا کلام لکھیں گے اور جمع کریں گے جن شاعروں کو لکھنا نہیں آتا۔
اس دستور العمل کے آخر میں خدائیداد کا شناسا خوبصورت دستخط موجود ہے اور 21-6-52 کی تاریخ درج ہے۔
۔سترہ جولائی 1952کی ایک انٹلیجنس رپورٹ میں پشتو ٹولی کے عہدیداروں کے بارے میں یوں کہا گیا:
۔’’صدر۔ ملک شیر محمد غلزئی ،سکنہ نچاری، پرانا کا نگریسی ہے اوربہت پکا پشتو نستان نواز ہے۔
۔’’ نائب صدر مولوی عبدالخالق تارنٹر ۔ پرانا کانگریسی ہے ۔پروگریسور ائٹرر ایسوسی ایشن میں بھی دلچسپی رکھتا ہے‘‘۔
۔’’جنرل سیکرٹری خدائیداد سکنہ عنایت اللہ کاریز ۔ حالیہ سکونت ابوالخیر سٹریٹ کوئٹہ۔ یہ پہلے ٹیلیگراف آفس میں کلرک رہ چکا ہے مگر کمیونسٹ سرگرمیوں کی وجہ سے نوکری سے نکال دیا گیا تھا ۔ کمیونسٹ لٹریچر درآمد کرتا ہے ۔ پشتو نستان نواز ہے ۔ افغان کونسل سے رابطے میں ہے‘‘۔
اس انٹلی جنس رپورٹ میں ایک پیراگراف سائیں کمال خان شیرانی پر بھی ہے۔
’’کمال خان (سرگرم ممبر) ۔۔حالانکہ اس کے پاس ٹولی کا کوئی عہدہ نہیں ہے مگر وہ اس کا ایک سرگرم ممبر ہے ۔ اس نے حال ہی میں اس تنظیم کے ترجمان کے بطور ’’پشتو ‘‘نام کے ماہنامہ کی اشاعت کی ڈیکلریشن کے لیے درخواست دے رکھی ہے ۔کمال خان کو کمیونسٹ رجحانات والے اشخاص کے ساتھ رفاقت میں دیکھا گیا ہے‘‘۔
جیسے کہ ذکر ہوا ،پشتو ٹولنہ کے ساتھ ساتھ لٹ خانہ میں ’’ بلوچی زبان و ادبئے دیوان‘‘ نامی تنظیم بھی قائم کی گئی۔
۔1952ء میں عبداللہ جان ’’ نوائے بلوچستان ‘‘ نامی اخبار سے وابستہ ہو گیا جبکہ ڈاکٹر خدائیداد ٹیوشنیں اور اکاؤنٹنسی کرتا رہا ۔ یہیں انجم قزلباش اُن سے وابستہ ہو گیا اور اسی کی بدولت لٹ خانہ اخبارات بالخصوص امروز ، پاکستان ٹائمز اور لیل و نہار سے متعارف ہوا ۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے