کوئی ہے جو بارش سے کہے
میری کھڑکی نہ بجائے
مجھے آواز نہ دے
بہانوں سے اپنی طرف نہ بلائے
میری توجہ کھینچنے کو بجلی کے کوندے نہ لہرائے

کوئی ہے جو بادلوں سے کہے
چپ ہو جائیں
رات کتنی گہری ہے
اس میں ڈوب جائیں
اڑ کر کہیں دور نکل جائیں
آہستہ آہستہ بکھر جائیں

کوئی ہے جو خاموشی سے کہے
بولنا بند کرے
میری روح پر اس کے قدموں کی دھمک پڑتی ہے
میں اس کی آواز سن کر پاگل نہ ہو جاؤں
کہیں خود اپنے ہاتھ سے نہ نکل جاؤں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے