صاحبِ صدر ،سٹیج پر بیٹھے ہوئے قائدین اور معزز خواتین و حضرات۔ سب سے پہلے میں شاہ عنایت شہید کے رُوحانی وارثین شُہدائے پٹ فیڈر کو جھک کر سُرخ سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے ضیا الحق سیاہ دَور میں اپنے حقوق کے لیے ظالم جاگیرداروں کے سامنے سینہ سِپر ہو کر اپنے مقدس خون سے شاہ عنایت شہید کی سُنت کو زندہ کیا۔ شاہ عنایت کا فلسفہ اور نعرہ تھا ’’جو کھیڑے سوکھائے‘‘یعنی زمین اُس کی ہے جو اُسے آباد کرتا ہے ، کھیت اس کا ہے جو دِن رات بچوں کے ساتھ محنت کر کے فصل تیار کرتا ہے ۔ یہ نعرہ یہ فلسفہ جسے جاگیردار طبقہ اپنی موت تصور کرتا ہے کسان طبقہ کے لیے فلسفہِ حیات ہے ۔ واقعہِ پٹ فیڈر میں بھی یہی فلسفہ کار فرما تھا۔ ایک طرف ظالم جاگیردار جس کی ذہنی تربیت انگریز سامراج نے کی تھی ان کے پُشت پر ضیاء الحق کاہاتھ تھا دوسری طرف نہتے اور معصوم کا شتکار۔ ایک طرف وہ ٹولا تھا جسے اپنی اقتدار و طاقت پہ گھمنڈ تھا دوسری طرف حقدار ٹولا جسے اپنے عزم واستقلال پہ بھروسہ تھا ۔ دنیا نے دیکھاشہدائے پٹ فیڈر نے اپنے مقدس لہو سے تاریخ رقم کی اور جیت اپنے نام کی ۔ جیت ہمیشہ حق ہی کی ہوتی ہے ۔ یہ حق و باطل کا معرکہ کاشتکار و جاگیردار کا معرکہ ، مزدور و سر مایہ دار کا معرکہ ازل سے ہے اب تک رہے گا۔
جاگیرداری نظام کی بنیاد ظلم و جبر پر ہے ۔ یہی غلام داری نظام کا تسلسل ہے اِس نظام میں انسانیت کی حیثیت غلام جیسی رہ جاتی ہے ۔ کھیت مزدورکو ذاتی غلام سمجھا جاتا ہے ۔ اُسے ہر سہولت سے محروم رکھا جاتا ہے ۔ بیگارلی جاتی ہے ۔
اس سارے عمل میں جاگیردار اکیلا نہیں اس نے ملّا، پیر اور ریاست کو اپنے ساتھ ملایا ہوا ہے ۔ یہ مُلا جاگیردار اور سرکار کا گٹھ جوڑ ہے ۔ انسانیت ان کے مکروہ جال میں جکڑی ہوئی ہے ۔ ایک ہماری ایمان کا ٹھیکہ دار بنا ہوا ہے اور دوسرا رزق کا خود ساختہ مالک ،اور ریاست ان دونوں کا سرپرست ۔ اِس شیطانی اتحاد کا مقابلہ شاہ عنایت شہید ہی کے فلسفے سے ممکن ہے ۔ کسان کھیت مزدور کو مُتحد ہو کر اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنا ہوگا۔ کیونکہ اتحاد اور جہد مُسلسل کے بغیر کوئی بھی تحریک کا میاب نہیں ہوسکتی ۔ چونکہ منزل ابھی دور ہے۔ اس لیے اتحاد و جدوجہد آخری فتح تک۔
کسان اور کھیت مزدور بدترین زندگی گزار رہے ہیں ۔طبقاتی شعور کی کمی کی وجہ سے کسان اور کھیت مزدور سیاسی طور پر جاگیرداروں اور بڑی زمینداروں کے مالکان کی پارٹیوں کے ووٹر اور سپورٹر ہوتے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں بظاہر کسان کے حقوق کی بات کرتے ہیں عملاً وہ بھی کسانوں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں اور پھر اگلے الیکشن تک اِس مظلوم طبقے کی طرف مُنہ بھی نہیں کرتے ہیں۔
مجموعی طور پر بلوچستان میں 14 فیصد مالکان کے پاس 81فیصد زرعی زمین ہے بلوچستان۔ ابھی تک فیوڈلزم کے عہد سے چھٹکارا نہیں پاسکا۔ قبائلی سردار اپنے کاشتکاروں سے پیدا وار کا نا جائز حصّہ وصول کرتے ہیں ۔ روایتی موروثی جاگیردار نسل در نسل کسانوں کا استحصال کرتے چلے آرہے ہیں۔ ناجائز بٹائی کا سارا حصّہ لے جاتے ہیں ۔ کبھی ہل کے نام پر کبھی زرعی کھاد و ادویات کے نام پر، کبھی بیج کے نام پر پیداوار جاگیردار لے جاتے ہیں اور ہاری بیچارہ ہاتھ ملتے رہ جاتا ہے ۔
بلوچستان خصوصاً نصیر آباد ریجن میں کسان طبقہ ابتر صورتحال کا مقابلہ کر رہا ہے ۔ زرعی مشینری وزرعی ادویات واجناس کی مہنگی قیمتوں نے کسانوں کو بے حال کر دیا ہے ۔ پانی کی کمی اور اس کی نامنصفانہ تقسیم ایک بڑا مسئلہ ہے ۔ ہیڈ کے زمیندار آبپاشی عملداروں کے ساتھ مل کر ٹیل کے کسانوں کا پانی چوری کرتے ہیں۔ وقت پر پانی نہ ملنے کی وجہ سے فصل اکثر ہوتے نہیں ہیں، اگر ہوتے بھی ہیں تو پیداوار انتہائی کم ہوتا ہے نہروں کی صفائی نہ ہونے کی وجہ سے پانی کی روانی نہ ہونے کے برابر ہے ۔ سالانہ کروڑوں بلکہ اربوں روپے بدعنوانی کے نظر ہوجاتے ہیں۔
کسانوں کے مسائل کو سائنسی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے ۔ کسان خوشحال تو معاشرہ خوشحال ، اور معاشرہ خوشحال تو ملک و قوم خوشحال۔۔۔ ایک مرتبہ پھر شہدائے پٹ فیڈر کو لال سلام ۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے