(از جناب فخر بلوچستان نواب زادہ سردار میر محمد یوسف خان تمندار مگسی بلوچ)

عشق والوں کو سروکار نہیں باتوں سے
وہ تو دن رات فقط کام کیا کرتے ہیں

آج کل جبکہ ہماری حالت پستی کے اس درجہ تک پہنچ چکی ہے ۔ جسے جماعتی اصطلاح میں موت کے نام سے موسوم کیا جاسکتا ہے ۔اور جب کہ باہمی نفرت وعداوت کا وہ مرگ آور تخم جسے اگر نا خدیانِ قوم نے سپرد زمین کیا تھا تو موجود آئین نے اس کی آبیاری میں اپنی تمام قوتیں صرف کردی ہیں۔ ہلاکت وادبار کے انبار اپنی ہر کونپل میں منہ چھپائے منزل شباب پر پہنچ چکا ہے ۔ تو یاد رکھنا چاہیے کہ صرف اخباروں میں مضامین لکھنے یا پلیٹ فارموں پر ولولہ انگیز تقاریر سے سامعین کو مسحور کرنے سے کچھ نہیں بنتا۔ یہ اگر قانون قدرت ہے کہ ہر ایسے مرحلہ پر اس قسم کے زوال پذیر اقوام میں چند ایک امروز کی شورش میں اندیشہ فرد ا رکھنے والے امور طوفان آنے سے پہلے آثار طوفان کو جانچ لینے والے درد مند پیدا ہوتے ہیں۔ اور جوا گررات تاریک ہے تو ان کی بلا سے اسباب سفر مفقود ہیں تو غم نہیں ۔ وہ :
میں ظلمت شب لے کے نکلو نگااپنے درماندہ کار واں کو
شررفشاں ہوگی آہ میری نفس میرا شعلہ مار ہوگا
کی ظلمت شگاف صدائیں لگاتے ہوئے گامزن منزل ہوتے ہیں ۔ تو یہ بھی نہ صرف صحیح ہے ۔ بلکہ ضروری ہے ۔ کہ وہ صرف صدائیں نہیں لگاتے صرف مضامین نہیں لکھتے۔ بلکہ ایمان اور ارادہ کے ہتھیاروں سے مسلح ہوکر ان اسباب کو مہیا کرنے میں عملاً مصروف ہوجاتے ہیں۔ جن سے قوموں کی بگڑی بنا ئی جاسکتی ہے ۔ جن سے روٹھی ہوئی قدرت کو پھر منایا جاسکتا ہے ۔ میں یہاں بالا جمال صرف یہ عرض کر کے معذرت کا خواستگارہوں گا اور میرے مخاطب فطرت کے وہ حسین اور صورت عمل نقوش ہیں جسے نسل جدید کہا جاتا ہے ۔
نوجانان قوم بلوچ وبلوچستان کا فرض ہے ۔ کہ اپنے دائر ہِ عمل کے اندر یا کم از کم اپنے گھروں کے اندر اپنے لیے ایک لائحہ عمل مقرر کر لیں گے۔
۔1۔ کم از کم وہ اپنے گھروں سے فرقہ بندی اور پارٹی بازی کو ختم کر کے ہی چھوڑدیں گے۔
۔2۔ اور حصول تعلیم اور تبلیغ حصول تعلیم دیگر روز مرہ ضروریات زندگی کے مانند اُن کا فرض ہوگا۔
۔3۔ ہر وہ بری اور مسرفانہ اور ہمت شکن رسم (جس میں پیر پرستی قبہ پرستی اورسرمایہ پرستی بھی شامل ہیں) کی مذمت اور بیخ کنی نوجوانوں کا فرض ہوگا۔
۔4۔ ہر وہ اعتقاد یاہر وہ نیاز و سرافگندگی جو اللہ کے لیے ہونی چاہیے ۔ اس میں کسی گوشت وپوست کے بت کو شریک نہیں بنانا چاہیے۔ چاہے اس نے اپنے بت کے اوپر کس قدر ہی سونا اور چاندی لیپ لیا ہو۔ یا اپنی قدرت میں لوہے کے ایک دھار دار ہتھیار یا سوراخ دار نالی جس میں سیسہ اور باروت بھر کر آواز نکالا جاتا ہو۔ رکھتا ہو۔
ہمارے بدبخت ملک کے نوجوان اگر دو سال ایک منتظم پروگرام کے ساتھ اس لائحہ عمل پر کام کرنا شروع کردیں تو انشااللہ ہم اپنی کھوئی ہوئی معصومیت اور زائل شدہ اقتدار کو جلد حاصل کر لیں گے۔مجھے اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ ہماری ذلت میں اس آئین کو جسے آپ مختلف نام مثلاً فرنٹیر ریگولیشن جرگہ سسٹم دے سکتے ہیں ۔ بہت حد تک دخل ہے ۔اور بدقسمتی سے حکومت اب تک اس رسوائے زمانہ سسٹم کے قیام میں اپنے شاہی مفاد کو ستور سمجھتی ہے مگر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اپنی خود فراموشیاں اور سیہ کاریاں بالکل نظر انداز کی جائیں۔
ہمیں اصولاً حکومت سے شاکی بھی ہونا نہیں چاہیے۔ ہر فرد یا ہر جماعت اور حکومت کا فرض ہے ۔ کہ اپنے مفاد کو محفوظ رکھنے کیلئے ہر ممکن سعی کرے ۔کاش کہ روحانیت یا عام محبت انسانی کے نظریہ کا حکومتیں بھی قائل ہوں۔ اس لیے کسی دوسرے کا شاکی ہونے کی بہ نسبت یہی احسن ہے کہ ہم اپنی فطرت صحیحہ کی تشخیص کریں اور خود اپنے آپ کو قابل عزت بنا کر کر اپنی عزت کرنا سیکھیں ۔
محبت سے ہی پائی ہے شفا بیمار قوموں نے
کیا ہے اپنے بختِ خفتہ کو بیدار قوموں نے
یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتحِ عالم
جہاد زندگانی میں یہ ہیں مرد وں کی شمشیریں
آپ کا غمخوار بھائی
محمد یوسف علی خان عزیز (بلوچ)۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے