یادداشت

اس دوران بلوچ کانفرنس کی سرگرمیاں جاری رہیں۔5فروری 1933کو بلوچ کانفرنس کی ورکنگ کمیٹی کا اجلاس سبی میں مگسی صاحب کے بنگلے پر منعقد ہوا۔ صدارت کانفرنس کے چیئرمین عبدالصمد اچکزئی صاحب نے کی۔(1)اس کے علاوہ راہنماؤں کے دورے جاری تھے۔سیاسی ورکر کی توہر حرکت سیاسی ہوتی ہے ۔ مگسی صاحب اپنے بھائی محبوب علی کے ہمراہ 17مارچ 1933کو کوئٹہ سے سبی بذریعہ کار روانہ ہوا، تو ظاہر ہے وہ دورہ بھی سیاسی اہمیت رکھتا ہوگا۔ اس لیے کہ اپنے قبیلے کا سربراہ ہونا اور سبی جانا بہت اہم معاملات ہوتے ہیں ۔ سیاسی بھی قبائلی بھی اور شخصی بھی ۔ مگر یہاں معاملہ ہی دوسرا ہے اس لیے کہ مگسی صاحب کے پاس شخصی کام ہوتا ہی نہ تھا۔ بلوچ کانفرنس ہی اس کا شخصی مورچہ بھی تھا، عوامی بھی اور نظریاتی بھی ۔وہ پھر لاہور چلا گیا اور 13اپریل 1933کو لاہور کے دورے کے بعد بذریعہ ٹرین سبی پہنچا ۔ وہ 14اپریل کو خان کلات اور سٹیٹ کونسل کے ممبران سے گفت و شنید کرنے ڈھاڈر گیا۔
یکم مئی 1933کو بلوچستان اینڈ آل انڈیا بلوچ کانفرنس کی طرف سے جوائنٹ پارلیمنٹری سلیکٹ کمیٹی لندن کو ایک یادداشت بھیجی گئی۔یہ یادداشت کانفرنس کے چیئرمین جانب سے جوائنٹ سلیکٹ کمیٹی ہاؤس آف لارڈز لندن کو بھیجی گئی ۔ اس کے مندرجات یوں تھے:
’’ میں آپ کو بلوچستان کے بارے میں ، جوائنٹ سلیکٹ کمیٹی کے سامنے پیش کرنے کے لیے ورکنگ کمیٹی آف بلوچستان اینڈ آل انڈیا بلوچ کانفرنس سے منظور شدہ میمورنڈم آف ایوی ڈنس (ایک اضافی کاپی کے ساتھ) بھیجنے کا اعزاز حاصل کر رہا ہوں۔
۔1۔ اگر کمیٹی ہماری ایوی ڈننس سننے کا فیصلہ کرتی ہے تو ہم تین ممبرز کا ایک وفد اُن کی خدمت میں بھیجیں گے۔

تعارف: ۔
برطانوی سلطنت کا سب سے زیادہ نظر اندازکردہ حصہ بلوچستان ،جو شمال مغربی سرحدی صوبے کی نسبت زیادہ مختلف خاصیت رکھتا ہے ، اوریہ اگر ساری دنیا نہیں تو انڈیا میں اچھا خاصا یکتا ہے۔بلوچستان کے طبعی پہلو،جغرافیائی محلِ وقوع ،سیاسی انتظامیہ،اور سب سے بڑھ کر ،اس کے بین القبائلی تعلقات اور رسومات اس کی مخصوصیت میں اضافہ کرتے ہیں۔اس وسیع رقبہ میں جلتے میدان بھی ہیں اور منجمد وادیاں بھی،شاندار باغات بھی ہیں اور بنجر زمین بھی، اڑتی ریت بھی ہے اور غراتے سیلابی پہاڑی دریابھی۔ یہ اپنے جغرافیائی محلِ وقوع کی وجہ سے اپنی عظیم سیاسی اہمیت حاصل کرتاہے ۔ اس لیے کہ یہیں سے برطانوی سلطنت فارس اور افغانستان سے ملتی ہے اور درہِ بولان پہ اپنی چوکس آنکھوں سے آگے سرخ خطرے سے خبردار رہتی ہے۔ شاید اس کی سیاسی انتظامیہ کا نظام دنیا میں سب سے زیادہ مطلق العنان ہے اور نیشن بلڈنگ کے لیے سب سے کم مائل ہے ۔ اس کی سب سے بڑی خصوصیت اس کی بین القبائلی او ربین العلا قائی تعلقات اور رواج ہے، جس کے اندر اس کا لازمی اتحاد موروثی طور پر رکھا ہوا ہے۔۔ اس قدر سادہ اور آشکار اور پھر بھی اجنبیوں کی طرف سے بہت کم شناختہ ۔
بلوچستان نامی یونٹ میں حد بندی ایک صورت میں نہیں ہے ۔ حد ایک دوسرے کے اوپر چڑھے ہوتے ہیں اور بلوچ،براہوئی اور پٹھا ن تقریباً سارے اضلاع میں برادرانہ طور پر مکس انداز میں رہتے ہیں۔کوئی بھی ایک شخص لیں تو دس میں ایک، کسی نہ کسی صورت بلوچستان میں موجود سارے ایڈمنسٹر یشنوں سے وابستہ ہوگا۔ آپ اسے برطانوی رعایا فرض کریں اور آپ دیکھیں گے کہ اس کے پاس کسی ایک ریاست میں زمین ہوگی اور وہ ٹرائبل اور ایجنسی علاقوں میں سے کسی سے قریبی طور پر جڑا ہوگا۔ آپ کسی جگہ رک جائیں اور آپ دیکھیں گے کہ برطانوی ریاست اور ٹرائبل علاقے باہم ملے ہیں۔ پولٹیکل ایجنٹ کلات کو دیکھیے ۔ وہ ریاستوں کے حوالے سے پولٹیکل ایجنٹ بھی ہے، چاغی ایجنسی کا انتظامی سربراہ بھی ہے اور بولان ضلع کے لیز شدہ علاقے کا انچارج بھی ہے ۔ چنانچہ ایک بلوچستانی صوبے کے کسی بھی حصے میں، سمجھو اپنے گھر میں ہے ، خواہ یہ ایک ریاستی ’’نیابت‘‘ ہو ،ایک برطانوی ضلع ہو، لیز شدہ ہو یا مقبوضہ ، ایک قبائلی خطہ ہو یا ایک ایجنسی کا علاقہ ۔بلوچستان کی وحد انیت ایسو سی ایشنوں ، کانفرنسوں اور دیگر مہموں ،کا موں میں دل کی گہرائی سے اس کے سارے قبیلوں کے تعاون سے ثابت ہے ۔یہی اتحاد ہے جس پر کہ اس کی مستقبل کی ترقی کی مضبوط بنیادیں رکھی جاسکیں گی۔ چونکہ خارجی لوگ اس نقطے کو دیکھنے میں ناکام رہتے ہیں جو کہ نصف عیاں اور نصف پوشیدہ ہے ،اس لیے کہ ان کے خیال میں بلوچستان میں آئینی اصلاح ناقابل حل نظر آتی ہے۔
۔2۔ چنانچہ ہمارا مقصد بلوچستان میں داخلی کنفیڈریشن ہے۔ مرکز کے ساتھ ایک ’’ون ‘‘ یونٹ کے بطور وفاقیت کرتا ہوا۔ جس شخص نے بھی تعارف کا پہلاحصہ مکمل اور ہمدردانہ طور پر پڑھا وہ یقیناًقرار دے گا کہ ایک علیحدہ نہ کیے جاسکنے کی حد تک مربوط صوبہ ہونے کی وجہ سے ہمارا پیش کردہ سکیم بہترین اور دوراندیش ترین ہے ۔ یہ بات بہر حال ریاستوں پر چھوڑ دی گئی کہ وہ ہماری نصیحت کو قبول کریں جو کہ دونوں طرفین کے لیے مفید ہے ، یا وہ ایک کنفیڈریشن کو ممکن بنائیں، یا الگ تھلگ رہیں ۔ ایک کنفیڈریشن کے لیے تجویز کو رد کرنے کی صورت میں ہمارا منصوبہ مناسب تبدیلیوں کے ساتھ پھر بھی بہتر ہے۔
۔3۔ یہاں یہ قابلِ ذکر ہے کہ 29دسمبر1932کو جیکب آباد کے کھلے سیشن میں ہماری کانفرنس نے جو قرار داد پاس کی جس میں ایک گورنری کے صوبہ کے بطور مکمل اصلاحات کا مطالبہ کیا، وہ کسی صورت اِس سکیم سے بری طرح سے متعصبانہ نہیں ہے جو کہ مقصد کے احساس کی طرف پہلے قدم کی حیثیت رکھتا ہے ۔ نہ ہی ہمارا ارادہ ہے کہ اس سکیم کو آنے والے انڈین اصلاحات کے ساتھ لازم وملزوم تصور کیا جائے ، اور بلوچستان میں اصلاحات صرف اسی وقت متعارف کیے جائیں جب انڈیا میں وہ اصلاحات نافذ ہوچکی ہوں۔ انڈیا پہلے ہی کئی اقدام آگے بڑھا چکا ہے جبکہ بلوچستان کو نظر انداز کیا گیا۔ اور عادلانہ بات یہ ہے کہ اُس کے مطالبات کو انڈین آئینی اصلاحات کے بل کی منظوری سے پہلے تسلیم کرنا چاہیے اور اسے اُس کی وفاداری پر انعام دیا جائے۔
۔4۔ تعارف کے اختتام سے پہلے ایک نکتہ اور ۔ میمورنڈم کے اندر فنانس کا معاملہ نہیں چھیڑا گیا۔ اس کا تذکرہ یہاں ضروری ہوجاتا ہے ۔ برٹش بلوچستان بلاشبہ حسبِ سابق مرکزی حکومت سے امداد کے ذریعے چلایاکیا جائے گا۔ ریاستیں اگر کنفیڈریسی میں شامل ہوجائیں ،تو انہیں شاہی جرگہ ، فیڈرل کورٹ کے اجلاسوں اور اس طرح کے دوسرے مشترکہ معاملات پر اٹھنے والے اخراجات میں اپنا حصہ ادا کرنا ہوگا۔
۔5۔ ایک ایسے میمورنڈم کے لیے ذرا تفصیلی تعارف اس لیے ضروری تھا کہ کم شناختہ بلوچستان کے بارے میں بالعموم حکومت اور بالخصوص سلیکٹ کمیٹی کے ممبروں کے دماغوں سے اس صوبہ کے حصوں اور عوام کے فرض کردہ غیر یکساں اور بے آمیزش خاصیت جیسی کسی بھی طرح کی غلط فہمیوں کو دور کیا جائے۔
۔6۔ موجودہ ایڈمنسٹریشن کی خامیاں:
کمیٹی کے سامنے تجاویز پیش کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ صوبے کی موجودہ انتظامیہ ،جہاں تک کہ اس کا تعلق برطانوی بلوچستان اور ایجنسی علاقوں سے ہے،کی خامیاں بتائی جائیں۔
۔7۔ موجودہ انتظامیہ سے متعلق ہم نے مندرجہ ذیل نکات پر مشتمل تجاویز پیش کی ہیں۔

۔ ایف سی آر ، بلوچستان رولز ، اور بلوچستان کے لیے اسی طرح کے دیگر رولز i
یہ تمام رولز بلوچستان کی ترقی میں ایک رکاوٹ ہیں۔ مقامی حالات اور عوام کی ذہنیت کی تبدیلی ملک کے رولز میں تبدیلی کو ضروری بناتے ہیں۔ یہ رولز اور ریگولیشنز انصاف اور مساوات کی روح کے خلاف ہیں۔
۔ پولٹیکل افیسروں کے غیر معمولی اختیارات:ii
پولٹیکل افسراپنے ضلع کے تمام محکموں کے سربراہ ہیں۔ وہ مثلاً پولیٹیکل ایجنٹ ہیں، ڈپٹی کمشنر ہیں، ضلع مجسٹریٹ ہیں،اور’’بی‘‘ایریا کے لیے پولیس یعنی لیویز انچارج ہیں۔اختیارات کی یہ مرکزیت ان کو پبلک سرونٹ کے بجائے بادشاہ بناتی ہے ۔ اس کے نتائج واضح ہیں۔
۔ بلوچستان کا نام نہاد کسٹمر ی لا:iii
کسٹمری لا محض سردار اور اہم اشخاص کے بدلتے تیور اور گمانوں کا مجموعہ ہے۔ یہ نہ شریعت کے مطابق ہے اورنہ جدید مساوات کے ۔ یہ نہ صرف مختلف قبائل بلکہ قبیلوں کی ذیلی شاخوں اور اُن کی بھی شاخوں کے الگ رواجوں کو تسلیم کر کے اتحاد کی بجائے بے اتفاقی کو بڑھاتا ہے ۔
۔جرگہ مقدمات کی سماعت:iv
جرگے چھوٹے جرائم سے یا معمولی قرض سے لے کر سارے اہم سیاسی مقدمات سے نمٹتے ہیں ۔ مقدمات ،گواہیاں سننے اور مقدمات کی عمومی کاروائی بہت ناقص ہے۔ کوئی کراس ایگزامنیشن نہیں ، گواہی کو ریکارڈ نہیں کیا جاتا۔ جرگہ مقدمات کے اپیلوں سے نمٹتے وقت فریقوں کو نہیں بلایا جاتا۔
۔ شاہی جرگہ:v
اس کی دوہری خاصیت یعنی قانون سازی اور مقدمات کا فیصلہ کرنے کے لیے کوئی راہنما اصول نہیں ہیں۔
۔ریونیو افسروں کو جوڈیشنل اختیارات:vi
یہ نظام ہندوستان کی نسبت بلوچستان میں زیادہ نقصان دہ ہے ۔
۔پولیس پابندیاں:vii
ہندوستان سے بلوچستان میں آنے والے وزیٹرز پر سخت پابندیاں۔۔۔ بلوچستان کے اندر مقامی مسافروں پر غیر معمولی نگرانی ۔۔۔سٹیزن شپ کے کوئی حقوق نہیں۔
۔تقریر اور پریس پر پابندی:viii
تقریر کی آزادی حاصل نہیں۔سیاسی ، سماجی حتی کہ مذہبی تقریر بھی اگر اصلاحاتی ہو تو ممنوع ہوتی ہے۔ کسی بھی ایسے اخبار کی اشاعت کی اجازت نہیں جوآزادانہ تنقید کرتاہو، جوسیاسی خبریں مہیا کرتا ہو ، یا سیاست پر بات کرتا ہو۔
۔تعلیم:ix
نظامِ تعلیم پبلک کنٹرول میں نہیں۔نصاب میں مذہبی تعلیم کو کوئی اہمیت حاصل نہیں۔ تعلیم یافتہ بلوچستانیوں کی کوئی حوصلہ افزائی نہیں ہوتی۔ اور یہ دوسروں کو تعلیم یافتہ بننے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔
۔ زراعت ، لائیوسٹاک اور تجارت 😡
کوئی سائنسی ہدایات نہیں۔پھلوں کی کاشتکاری کے لیے ناکافی حوصلہ افزائی ،رہنمائی حاصل نہیں اور نہ ہی ان کی بھر پورحوصلہ افزائی کی جاتی ہے ۔ محکمہ حیوانات میں کوئی ریسرچ نہیں۔ پھلوں کی تجارت کے لیے سہولیات نہیں۔ غیرملکی مقابلہ کے خلاف کوئی تحفظ نہیں۔
۔ سروسزxi
بلوچستانیوں کی سرپرستی ناکافی ہے۔ اعلیٰ نوکریوں میں براہ راست بھرتی نہیں ہوتی ۔

۔8۔ وائٹ پیپر او ربلوچستان:
وائٹ پیپر میں موجود اس صوبے کے بارے میں تجاویز بھی بلوچستا نیوں کو حتمی طور پر ناقابل قبول ہیں۔ بلوچستان گونر جنرل کے براہ راست ماتحت نہیں رہنا چاہتا۔ بلوچستان کی سیاسی اہمیت کو مدنظر رکھ کر نمائندگی کافی نہیں۔

۔9۔ انضمام کا معاملہ:
بلوچستان کا ہندوستان کے کسی اور صوبے کے ساتھ الحاق کامعاملہ بھی ، بلوچستان کو قبول نہیں ہے۔اگر یہ قابلِ عمل ہوتا بھی، جو کہ خوش قسمتی سے نہیں ہے۔
پنجاب کے ساتھ اسے ملانے کے جواز کے لیے اس کے کوئی نسلی ناتے نہیں ہیں۔ سندھ اور شمال مغربی سرحدی صوبہ خسارے کے صوبے ہیں اور وہ اپنے کندھوں پر بلوچستان کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتے۔

تجاویز

آئینی اصلاحات کیلئے ہماری تجاویز درج ذیل ہیں۔
۔10۔ شاہی جرگہ کی تشکیلِ نو:
شاہی جرگہ قانون سازی کے مکمل اختیارات کے ساتھ بلوچستان کا آئین ساز ادارہ ہوگا۔ اور اس میں نمائندگی برٹش بلوچستان ، کلات، لسبیلہ اور خاران ریاستوں کی حکومتوں کو دی جائے گی۔ یہ بلوچستان کے کنفیڈریشن کے لیے قانون سازی کرے گا۔
اس کے پاس وضاحت طلبی،تجاویز کی مذمت کرنے اور قراردادیں منظور کرنے کے اختیارات ہوں گے۔ مندرجہ ذیل ترتیب سے اس کے 75ممبر ہوں گے ۔

برٹش بلوچستان

منتخب ممبران۔۔۔۔۔ 19
نامزد ۔۔۔۔۔۔۔۔21
اہلکاران۔۔۔۔۔۔ 6
مری، بگٹی قبائلی علاقے (نامزد) ۔۔۔2
ریاست قلات( بشمول خاران)۔۔۔۔23
ریاست قلات کے اہلکار۔۔۔۔1
ریاست لسبیلہ ۔۔۔۔۔ 2
ریاست لسبیلہ کااہلکار۔۔۔۔ 1
کُل تعداد۔۔۔ 75
ممبران کو اجلاس میں شرکت کیلئے کرایہ کی مد میں سکینڈ کلاس کا دو گنا ادا کیا جائے گا اور سیشن کے دوران 10روپے روزانہ ہالٹنگ الاؤنس دیا جائے گا ۔
شاہی جرگہ کی معیاد تین سال ہو۔
یہ بجٹ برٹش بلوچستان کے ممبروں (بشمول ٹرائبل ایریا کے ممبروں کے )کی طرف سے ووٹ سے ہوگا۔ اور دیگر ممبران کی بحث کے لیے کھلا ہوگا۔
شاہی جرگہ کے پاس ریزروبجٹ میں کٹوتیوں کی تحریک پیش کرنے کا اختیار ہوگا اور ریزروڈ امو ر پر تنقید اور وضاحت طلبی کا حق ہوگا۔

۔11۔ حق رائے دہی:
مندرجہ ذیل شرائط میں سے کوئی ایک شرط بھی پوری کرنے والا شخص ایک ووٹ کا حقدار ہوگا۔
۔1۔ جو لینڈر یونیو کے بطور سالانہ 5روپے ادا کرتا ہو۔
۔2۔ جو سالانہ2روپے مال چرائی کے بطور ٹیکس دیتا ہو۔
۔3۔ جو ماہانہ ڈھائی روپے گھر یا دوکان کا کرایہ دیتاہو۔
۔4۔ جو انکم ٹیکس دیتاہو۔
۔5۔ جو ایک گھر کا مالک ہو۔
۔6۔ جس نے یونیورسٹی سے مڈل کا امتحان پاس کیا ہو یا انگلش کی چار کلاسیں پڑھی ہوں۔

۔12۔ایڈمنسٹریشن:
ریاستوں کا نظم و نسق اُن کے شہزادے چلائیں گے ۔
برطانوی بلوچستان کا انتظام ایک چیف کمشنر 3ممبران پر مشتمل کونسل کے ساتھ سرانجام دے گا۔۔۔ جن میں ایک مشیر اور 2وزیرہوں گے ۔
مشیر کی نامزدگی گورنر جنرل کرے گا، جس کے پاس ریزروڈ محکموں کا قلمدان ہوگا جبکہ وزراء کے پاس ٹرانسفرڈ محکموں کے قلمدان ہوں گے ۔
ریونیوکے وزیر کے پاس (1) زمینوں کا ریونیو (2)اری گیشن (3) جنگلات (4) زراعت (5) ، معدنیات اور(6) ایکسائز کے محکمے ہوں گے۔
وزیرِ تعلیم کے پاس(1) تعلیم (2) صنعت(3) صحت(4) اور لوکل سیلف گورنمنٹ کے محکمے ہوں گے۔
وزراء کا انتخاب شاہی جرگہ برطانوی بلوچستان کے اپنے ممبروں میں سے کرے گا۔ اور وہ جرگہ کوجواب دہ ہوں گے ۔
وزراء کی تنخواہ 2000روپے ہوگی۔

۔13۔ بلوچستان اور مرکز:
بلوچستان فیڈرل انڈیا کا ایک یونٹ ہوگا۔ اس کی نمائندگی دو ارکان کریں گے ۔( ان میں سے ایک ریاستوں کی طرف سے فیڈرل آئین ساز اسمبلی میں ہوگا اور دوسرا ممبر ہاؤس آف اسمبلی میں ہوگا۔

۔14 عدلیہ:
ایف سی آر (فرنٹیر کرائمز ریگولیشنز) اور اس طرح کے دیگر قوانین کو منسوخ کیا جائے گا۔ کسٹمری لاء کا ایک مینوئل شریعت اور جدید انصاف کی روشنی میں لکھا جائے گا ، جو کہ تمام بلوچستان پر لاگو ہوگا۔
مقدمات کی ساری کاروائی تحریر ی شکل میں ریکارڈ کی جائے گی اور مقدمہ کے فریقوں کو ساری سہولیات کی اجازت ہوگی ، جس طرح کہ دیگر جگہوں میں ہیں ۔

لوکل اور ضلعی جرگہ:۔
ان ٹریبیونلزکے ممبران کی نامزدگی پہلے کی طرح ہوگی مگر شاہی جرگہ کے ممبران کی نامزدگی اس طرح نہیں ہوگی۔ وہ عام کسٹمری لاز کے مطابق مقدمات کا فیصلہ کریں گے۔

ہائی کورٹس: ریاستوں کے اپنے ہائی کورٹ ہوں گے۔
برٹش بلوچستان کے لیے چیف کمشنر، دو قانونی مشیروں (جن میں سے ایک کامقامی مسلمان ہونا ضروری ہوگا) ہائی کورٹ ہوگا۔

بلوچستان کی فیڈرل عدالت :۔
فیڈرل عدالت برطانوی بلوچستان اور ریاستوں کے پانچ نامزد ارکان پرمشتمل ہوگی۔

۔15۔ پولیس:
محکمہ پولیس چیف کمشنر کے ماتحت ہوگا۔ جوانسپکٹر جنرل کے بطور کام کرے گا۔
تاہم شاہی جرگہ کوفورس کے کسی بھی ممبر کے اقدام پر تنقید اور ملامت کا حق حاصل ہوگا۔

۔16۔ لوکل سیلف گورنمنٹ:
کوئٹہ میونسپلٹی ایک منتخب ادارہ ہوگا۔ سات میل کے دائرہ میں واقع دیہاتوں کو الیکشن اور نامزدگی کے مقصد کے لیے ٹاؤن میں شامل کیا جائے گا۔
مذکورہ حد میں رہنے والے ہر بالغ کو ایک ووٹ کا حق حاصل ہوگا۔
سبی،لورالائی وغیرہ میں چھوٹی ٹاؤن کمیٹیاں قائم کی جائیں۔
بازار فنڈز کو ڈسٹرکٹ لوکل بورڈز میں تبدیل کیا جائے گا۔ بورڈز کے صدر سرکاری اہلکار نہ ہوں ۔

۔17۔ اختتامیہ:
ہمارا میمورنڈم ختم ہوا اور ہم محسوس کرتے ہیں کہ اختتامیہ کے بطور کچھ الفاظ کہنا لازم ہیں۔بلوچستان میں آج تک کوئی انکوائری کمیٹی یہ دیکھنے نہیں بیٹھی کہ آیاکچھ اصلاحات کی طلب ہے یا ضرورت ہے ؟ ۔ لہذا جوائنٹ سلیکٹ کمیٹی کی جانب سے فراہم موقع کو ہم نے بے تابی سے پکڑا تاکہ اس کے سامنے اس طرح کے میمورنڈم کی صورت میں ایک جامع منصوبہ رکھا جائے ۔ ثانوی نوعیت کے نکات کابھی ذکر ہے اس لیے کہ (جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے )ہمیں یقین ہے کہ یہ اس سے پہلے ذمہ دار لوگوں کی کسی کمیٹی کے سامنے نہیں رکھے گئے۔
18۔
دو دلائل جو بلوچستان سے متعلق اصلاحات کے خلاف پیش کیے جاسکتے ہیںیعنی:۔ فنڈز کی کمی اورمنتشر آبادی۔یہ اتنے اہم نہیں ہیں کہ ان کے لیے ایک صوبے کے جائز حقوق قربان کیے جائیں۔ فنڈز کی کمی کی دلیل سے ہم پہلے ہی نمٹے ہیں۔کہ صوبہ کو گورنر کی بجائے چیف کمشنر کے ماتحت رکھا جائے، وزراء کی تنخواہیں کم رکھی جائیں اور شاہی جرگہ کے اخراجاتو کو کم ترین رکھا جائے۔بکھری آبادی ایک قدرتی خامی ہے ، جسے انسانوں کے ذریعے درست نہیں کیاجاسکتا ۔
لہذا ہم امید کرتے ہیں کہ بلوچستان کے سکیم اور مطالبات کی جزویات تک پر مکمل بحث کے لیے ہمارے وفد کو مدعو کیا جائے گا ، جس کے لیے بلوچستان ضرورت پڑے تو پر ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہے ۔ ہمیں امید ہے کہ سارے مطالبات مان لیے جائیں گے اور منصوبے پر جلد از جلد عملدرآمد کیا جائے گا۔
خان عبدالصمد خان اچکزئی
چیئرمین ، بلوچستان اینڈ آل انڈیا بلوچ کانفرنس‘‘

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے