ازل سے ابنِ آدم کیوں تلاش اپنی میں گرداں ہے
یہ کیسی سلسلہ در سلسلہ سی جستجو اور تہہ بہ تہہ اسرار کیسے ہیں
یہ کس وحشت کا صحرا ہے ،
ازل سے آبلہ پائی کابے منزل سفر جاری رہا جس میں
یہ کیسا سحرزا حیرت کدہ ہے اور کشش کیسی
جو پتھر بھی نہیں کرتی نہ یہ آزاد کرتی ہے
اور اِس ساری تگ و دو، جستجو ، وحشت کا حاصل اِک تمنا ہے
کسی آنکھوں کے آئینے میں اپنے عکس کو دیکھے
کسی محسوس پیکر میں وہ اپنے آپ کو پائے
مکمل ہو وجود اُس کا ، سکوں پائے ، قرار آئے
مسافر راہِ اُلفت کے ذرا ٹھہرو، ابھی دم لو
نہ جھانکو میری آنکھوں میں نہ کچھ بھی دیکھ پاؤ گے
یہ آئینے ہیں زنگاری ، نہیں اُتر ے گا عکس اِن میں
کسی کو مل بھی پایا ہے جو پیکر تھا تخیل میں؟
تلاشِ رائیگاں ہے سب سو بہتر ہے کہ باز آؤ

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے