اگر ہم خاک میں رہتے
تمہارے ہاتھ میں رہتے
دیے کی لو نہیں بجھتی
شجر دل کا ہرا رہتا
غموں کا سلسلہ رہتا
ادائیں بھی دکھی رہتیں
جفاؤں کا مزا رہتا
نمو کی جستجو رہتی
ان آنکھوں میں نمی رہتی
یہ خالی پن جو کھلتا ہے
یہاں پر کچھ نہ کچھ ہوتا
کہیں تو حرف کچھ چبھتے
کہیں پہ زخم بھی کھلتے نہیں کوئی بھی اب مصرف
یہ دن جو نرم لگتے ہیں
سمے یہ کچھ کڑا ہوتا
اگر ہم خاک میں رہتے
تمہارے ہاتھ میں رہتے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے