پھر اسکی خوشبو پکارے کسی کتاب میں بند
وہ ایک پھول کھلا تھا جو میرے خواب میں بند

میں کر رہا ہوں بدن سے ترے کشید مہک
میں کر رہا ہوں ترے حسن کو گلاب میں بند

میں جس کو چھیڑ کے خود بھی بڑا پشیماں تھا
عجیب کیف تھا اس ساز بے رباب میں بند

بس ایک لمحہ گزراں تھا سائبانِ سماں
مرے بہار و خزاں تھے کسی غیاب میں بند

نہ جانے کتنے زمانے مہکتے پھول میں تھے
نہ جانے کتنے ترانے تھے صوتِ آب میں بند

اسی خرابے سے پھوٹے گا جا بہ جا سبزہ
ندائے آب چہکتی ہے اس سراب میں بند

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے