بے خودی بڑھنے لگی تجھ سے شناسا ہوکر
خود کو کھو دیں نہ ترے عشق میں عنقا ہوکر

آتے جاتے ہوئے رستے نہیں بدلے گھر کے
جب بھی آیا ترے کوچے سے ہی آیا ہوکر

شام کا وقت گزرتا ہے تیری یادوں میں
شب گزرتی ہے ترے عکس سے گویا ہوکر

میں نے مانگا ہے تہجد کی نمازوں میں تجھے
میں نے سوچا ہے تجھے غافل دنیا ہوکر

اب تو آنکھوں میں کوئی خواب چمکتا بھی نہیں
خواب گاہوں سے بھی سو بار میں آیا ہوکر

آسکھا دوں میں تجھے دشت نوردی کا ہنر
مر نہ جائے کہیں صحرا میں تو پیاسا ہوکر

ایک قطرہ ہی سہی آج مگر بحر ذخار
تجھ میں مل جاؤں گا اک روز میں دریا ہوکر

ہاں ترے دست میں قدرت نے شفارکھی ہے
دردمندوں کا بھی تو دیکھ مسیحا ہوکر

مدتوں بعد جو دیکھا ہمیں آشفتہ سر
سنگ دل رونے لگا سامنے گویا ہو کر

میں نے چاہا تھا کہ وہ چھوڑ نہ جائے مجھ کو
بس گیا پھر وہ سحر دل میں تمنا ہوکر

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے