میں ساحلوں کو عطا ؔ کی غزل سنانے لگی
زمین اٹھ کے مِرے آسماں پہ چھانے لگی

گو تیری آگ مرے باغ میں زمانے لگی
مگر میں پھول تِری زلف میں سجانے لگی

ہوا کے طور سے پانی کا سانس گھٹنے لگا
نظر کے قحط سے پھولوں کی جان جانے لگی

گْماں کے غار سے اک خوف کی پِچھَل پَیری
نکل کے فہم و فراست کا دل چبانے لگی

یہ دیکھتی رہی پہلے درخت تھی میں بھی
پھر اپنی لکڑیاں خود کاٹ کر جلانے لگی

عجیب دْھن بجی آسیب ڈر کے بھاگ گئے
میں ایک خوابِ رواں سے نکل کرآنے لگی

دْرونِ دل کوئی پتہ گِرا اور اْس کی سدا
مِرے قریب کے لوگوں کو بھی ڈرانے لگی

نکل کے وہم سے نخلِ ابد کے بے گھر تھی
تمھارے ہاتھوں کا پھر گھونسلہ بنانے لگی

مْہیب شام مِری مرگِ نامکمل کی
تڑپ کو دیکھ کے میرا گلا دبانے لگی

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے