وقت کے تھال پر پھر نئے دن کی اجلی کرن تھرتھرانے لگی آہنی کھڑکیوں پر دھری رات کا جو ہوا سو ہوا

بند آنکھیں کھلیں اور پلکوں سے چمکیلے تارے جھڑے وہ حقیقت تھی یا خواب کا سلسلہ بھول جا جو ہوا سو ہوا

کیسے کردار تھے اس قدر لغو، بیکار ،الجھی ،ادھوری کہانی نبھاتے رہے زندگی تیری قیمت چکاتے رہے

لکھنے والے نے پیروں سے اندھا سفر باندھ کر لکھ دیا رائیگاں ،پھر فسانے کا انجام اس کے سوا جو ہوا سو ہوا

یاد ہے !آخری شام کے آخری پل نے چٹخی نظر کو چھوا تو زمانوں سے ٹھیرا ہوا زرد موسم پگھلنے لگا

خیر جانے دو قرنوں کی الجھی مسافت کے دوجے سرے پر دھری اک فریبی ملاقات کا ذکر کیا جو ہوا سو ہوا

ایک دن ہم سنہری کتابوں جنوں خیز خوابوں کا بستہ لیے آگ سر پر دھرے وقت کے دائروں سے نکل آئے تھے

زندگی پھر ہماری بلا سے تو آدھی یا پوری ،جہاں ،جیسے ، جس طورگزری ترے ساتھ اچھا برا جو ہوا سو ہوا

رات کیسی سیہ تھی مگر دیکھ لو ڈھل گئی جو گزرنی تھی دل پر گزر ہی گئی یہ گھڑی بھی گئی وہ گھڑی بھی گئی

ہجر کا پھول جس وقت کھلنا تھا کھل ہی گیا جو بھی ملنا تھا مل ہی گیا میری جاں کیسا شکوہ گلہ جو ہوا سو ہوا

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے