کبھی کبھی ہے وہ اکثر نہیں ہے میرے پاس
بلا کا خوف ہے اور ڈر نہیں ہے میرے پاس

تمہارے پاس تو اک دل ہے اس میں رہ لوگے
میں اک مکان ہوں اور گھر نہیں ہے میرے پاس

میں چل سکوں گا جو بیساکھیاں ملیں مجھ کو
میں اڑ سکوں گا مگر پر نہیں ہے میرے پاس

زمیں سے فون نہیں ہوسکے گا میرے دوست
خدا کا رابطہ نمبر نہیں ہے میرے پاس

وہ آئینے سے مجھے گھورتا ہے چھپتا ہے
مگر یہ سوچ کہ پتھر نہیں ہے میرے پاس

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے