حمیرا رحمان کی شاعری پر اپنے مضمون کا آغاز میں آج کی عہد کی بہت اہم افسانہ نگار خالدہ حسین کے جملوں سے کروں گی۔ خالدہ حسین کی علمیت اور دانش ان کی ہر تخلیق میں جھلکتی ہے خواہ وہ افسانہ ہو یا مضامین۔ یہ اقتباس جو میں یہاں پیش کررہی ہوں۔ ان کے مضمون ’’بے سر کی عورتُ ُسے لیا گیا ہے۔
’’ہماری اصل ہم عصر ادیب خواتین آج کے زمانے کی عورت کو سامنے لا رہی ہیں۔ وہ عورت کو ایک انسان، معاشرے کا با خبر فرد جانتے ہوئے اس کے تشخص اور اس نفسی انفرادیت پر ایمان رکھتی ہیں۔ اسے زندگی کے دھارے میں شامل دیکھتی ہیں۔ بات یہ ہے کہ آج کے ادب کی عورت کو اصل حقیقی اور ذہین عورت ہونا ہے۔ اس کے اپنے تجربات اور اپنے مسائل ہیں۔ اس کی اپنی روحانی تنہائیاں اور جذبات کی شکست و ریخت بھی ہے۔ اس کے دامن میں ہتک اور منافقتوں اور ملامتوں کے تجربات ہیں۔‘‘
اسی مضمون میں انہوں نے مرد ہم عصروں کے رویوں پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ان کے نزدیک عورت اب بھی زمانے سے کٹی ہوئی کہیں خلا میں لٹکی ہوئی بے ذہن جنس ہے۔‘‘
آگے وہ لکھتی ہیں کہ’’افسوس کہ خواتین لکھاریوں کا بھی ایک گروہ بے ذہن ستی ساوتری کو آدرش بنا رہا ہے۔‘‘
خالدہ حسین نے ایک اہم عصری سچائی کو بغیر کسی لاگ لپٹ کے موضوع بنایا ہے۔ اردو ادب میں ایسی خواتین لکھنے والیاں ہر عہد میں موجود رہی ہیں جن کی ذہنی و فکری بلندی اور ادبی قدو قامت نقاد اور محققین کی نگاہوں سے اوجھل رہی ہیں۔ بہت ہوا تو ان کے لئے سرپرستانہ انداز میں توصیفی کلمات لکھ دیئے۔
حمیرا رحمان کی شاعری پر لکھنے سے پہلے مجھے ان جملوں کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ حمیرا ان بے ذہن ستی ساوتریوں میں سے نہیں ہیں جن کے اشعار کو روایتی توصیفی جملوں سے نواز کر اس بات پر اطمینان کا اظہار کرلیا جائے کہ اس شاعرہ نے بنے بنائے سماجی ایجنڈے سے بالکل انحراف نہیں کیا۔ اس سماجی ایجنڈے کی مزید وضاحت ہوجائے گی اگر میں یہاں فہمیدہ ریاض کے الفاظ پیش کردوں۔ وہ اس رویے پر یوں تنقید کرتی ہیں۔
’’اب تک کسی بھی شاعرہ یا ادیبہ کی نگارشات پر ایسی تحریر شاز ہی میری نظر سے گزری ہے جس میں یہ اضافی معلومات موجود نہ ہوں کہ فلاں فلاں شاعرہ اپنی نسوانیت پر احتجاج نہیں کرتیں۔ وہ جرأت مند ضرور ہیں مگر بے شرم نہیں ہیں۔ وہ شاعری ضرور کرتی ہیں مگر تہذیب کے دائرے میں رہ کر۔‘‘ اب ایک اور رویہ بھی رائج ہوگیا ہے۔ ایک مقبولِ عام شاعرہ کے کلام کو سکہ رائج الوقت تسلیم کرلیا گیا ہے۔ کسی بھی دوسری شاعرہ پر لکھتے ہوئے ناپ تول اور مول کا اندازہ اسی سکے کی قیمت سے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ جانے بغیر کہ دوسری شاعرہ نے اپنے آپ کو اس ایجنڈے کی تخلیق سے کتنی دور رکھا ہے جو روایتی نقادوں کا من پسند ہے۔
حمیرا رحمان کی شاعری کسی پرچھائیں جیسی عورت کی شاعری نہیں بلکہ ایک جیتے جاگتے تجربات سے گزرتے زندگی کی سرد و گرم ہے نبرد آزما مکمل وجود کا ایسا اظہار ہے جس میں فکر بھی ہے اور کیفیت بھی۔ حمیرا کی شاعری سے سرسری نہیں گذرا جاسکتا۔ ان کی شاعری میں خوبصورتی بھی ہے اور تہہ داری بھی۔ اچھی شاعری کا مطالعہ خوبصورت مناظر کی سیر کی طرح ہے۔ اس سیر سے اس وقت ہی لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے جب کچھ دیر ٹھہر کر ماحول کے حسن کو محسوس کیا جائے۔ وہ حسین فضا جس میں رنگ بھی ہوتا ہے اور خوشبو بھی ہمیں اپنے حصار میں لے آئے۔ اردگرد کے بکھرے مناظر کی بے ترتیبی میں حسن اس کی ترتیب بن جائے۔ ایسی ہی بے ترتیبی کی ترتیب کسی فنکار کے فن پارے میں نظر آتی ہے۔ حمیرا رحمان نے اس نازک سچائی کو بڑی خوبصورتی سے اپنی ایک نظم کا موضوع بنایا ہے۔ اس نظم پر کوئی عنوان نہیں میں اس نظم میں ہی لکھی ایک خوبصورت ترکیب ’’بے ترتیبیوں کی توانائی ‘‘کو اس کا عنوان بنا رہی ہوں۔ نظم ہے۔
یہ میری میز پر رکھے ہوئے دوچار کاغذ
علامت ہیں مری اس شاعری کی
جو ابھی میں نہیں کر پائی
اشارہ ہیں
مرے اُس رنگ کا
جو میرے لفظوں میں دکھائی دے رہا ہے
اور مجھے تسکین دیتا ہے
مگر اظہار کے سارے دریچوں تک نہیں آیا
مگر جب تک یہ کاغذ میز پر ہیں
مجھ میں ہمت ہے
میں کچھ لکھوں نہ لکھوں
اپنی بے ترتیبیوں کی
اس توانائی کے سائے میں بیٹھنا
میری ضرورت ہے!
(انتساب سے)

کسی بھی تخلیقی عمل سے پہلے جو انتشار تخلیق کار کی ذات میں پیدا ہوتا ہے۔ کسی نامعلوم کو معلوم بنانے کی کیفیت سے جب وہ گزرتا ہے۔ جب وہ موہوم خیال کو مرتب کرتا ہے تو بے ترتیبی کی یہی توانائی اس کا ساتھ دیتی ہے۔حمیرا رحمان کو اس توانائی کا استعمال آتا ہے۔ وہ اظہار کی قوت سے آگاہ ہے اور ابلاغ کے مراحل کو بھی جانتی ہے۔ ابلاغ کے لئے صرف لفظ کافی نہیں بلکہ ضروری بھی نہیں۔ پھر اس کی کیا صورت ہوسکتی ہے۔ حمیرا نے ابلاغ کے ایک لمحے کو گرفت میں لے کر اس کا اظہار کردیا ہے۔
کبھی کبھی ایسا بھی ہوا ہے
میری آنکھ میں تیرنے والا
آنسو پہلے
اُس کی آنکھ سے ٹپک گیا ہے
جو کچھ میں نے
اُس سے کہنا چاہا ہے
گویائی سے پہلے اُس کی سماعت تک پہنچا ہے
یہ دنیا اظہار کی دنیا ہے
جس میں ہر کوئی اپنے
جذبوں اور لفظوں کو ظاہر کردے تو پہچانا جائے
گو ہم دونوں نے لفظوں کے کاندھے پر
کم سر رکھا ہے
لیکن بے دھیانی میں چلتے چلتے
دونوں
کتنا آگے نکل گئے ہیں
(بے دھیان مسافتوں کے ہم سفر کیلئے ایک نظم ۔مجموعہ انتساب)

حمیرانے اپنے پہلے مجموعہ ’’اندمال‘‘ سے دوسرے مجموعہ ’’انتساب‘‘ تک اور تازہ غزلوں میں بھی تخلیقی سفر بڑی کامیابی سے ایسی راہوں پر طے کیا ہے جہاں ان کے قدموں کے نشان کو پہچانا جاسکتا ہے۔ ان کی غزلوں کا انفرادی رنگ ہے۔ اس انفرادیت کو ان کی لفظیات اور غزلوں کی ردیفوں نے نمایاں کیا ہے۔ ان کی زیادہ تر ردیفین دو ،تین اور کہیں کہیں چار الفاظ پر بھی مشتمل ہوتی ہیں۔ ایک سے زیادہ الفاظ ہونے کی وجہ سے وہ خود اپنے معنی بھی رکھتی ہیں۔ جنہیں قافیہ سے مربوط رکھنا مشکل ہے۔ پھر یہ ردیفیں متحرک بھی ہیں۔مثلاً چھوڑ جاتا ہے۔ ہوا میں ہے۔ کھلے رہے۔ بجھ گئے ہیں۔ کاٹنے پڑتے ہیں وغیرہ۔ یہ ردیفیں کہیں کہیں ان کے تجربے اور جذبات کے بھرپور اظہار میں حائل ہوجاتی ہیں۔ یہ ردیفیں کہیں کہیں ابہام پیدا کردیتی ہیں اور زبان و بیان پر وہ قدرت جو اساتذہ کے کلام میں نظر آتی ہیں اس کی قدرے کمی محسوس ہوتی ہے۔یہ نشان دہی میں اس لئے کررہی ہوں کہ ذرا سی توجہ سے حمیرا غزل کے شعراء میں بہت نمایاں مقام حاصل کرسکتی ہیں۔ ان کے منتخب اشعار سنیے۔

اس قدر غور سے اس شخص کو دیکھا نہ کرو
وہ بھرے گھر کا ہے عادی اسے تنہا نہ کرو

روز تمہارے زخموں کو میں تازہ کروں
اور پھر اپنی چاہت کا اندازہ کروں

کٹ پتلی کا ایک تماشہ مجھ میں رہتا ہے
نیند میں بھی ایک جاگنے والا مجھ میں رہتا ہے

میری بیٹی نے مجھ کو دیکھ کر سیکھا ہے برسوں میں
پرانا آئینہ رکھ کر نئی آرائشیں کرنا

حمیرا اعتماد کا پہاڑ ڈھیر ہوگیا
اور اب بھی سوچتے ہیں ان سے اختلاف کیا کریں

جواز ٹوٹ گیا ہے مگر تعلق کا
ایک اہتمام وضعداریوں میں رکھا ہے
یقین عمر کی بوسیدہ ایک دراز میں بند
رفاقتوں کے کئی واہموں میں رکھا ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے