آدھا جنم بیج اگر کچھ خریدا جا سکتا تھا تو وہی بکا ہوا آدھا
اور ڈیوڑھی میں بیٹھ کر بتائی پوری رات جیسی زندگی
اپنی شرطوں پر جی جانے والی زندگی! کہاں ملتی ہے؟
وہ برسات کے بعد
دیوار میں سے جھانکتے ہوئے گھونگھے کی ست رنگی آنکھ سے آنکھ ملائے
روئے جا رہی تھی
شاید اْس کی بساط میں زندگی گزارنے کا کوئی اور طریقہ تھا ہی نہیں
اور میں
آگ سے کم پر میں کیا راضی ہوتی
اور راضی نامے میں میرا ہونا کہاں ثابت ہوتا تھا، اسلئے مجھے
ناراض لوگوں کی صف میں شامل کرکے گھونگھے والی دیوار کے سامنے لایا گیا تھا
میں پانی کے برابر کیوں کھڑی ہوتی
میں ہوا تھی اور دم پھونکنا میرا کام تھا، اِس سے کم پر راضی ہونا میرا منصب نہیں تھا
اس سے زیادہ کی طلب مجھ سے کیوں کی گئی
کہ صدیاں سوال ہو جائیں
جواب دار فتوے مرضیوں پر پہریدار ہوئے تو سسیاں سوہنیاں پیدا ہوئیں

مگر میں صاحباں ہوں
سہاگ پر سودا نہیں کرتی اور خون کی سچائی پر سیاہی نہیں
سرخی پھیرتی ہوں اور اسے سرخ ہی رکھتی ہوں
تاکہ خونیوں میں میرا شمار ہو
اور مردم شماری میں سے میرا نام کاٹ دیا جائے
میں عشق کا آخر نہیں، دشمنی کی بنیاد ہوں

میرے بعد لوگ صاحباں نام نہیں رکھیں گے
اور لڑکیاں اس خطے میں پیدا ہوتے ہی قتل کر دی جائیں گی
میں نے عشق کا ساتھ دے کر موت خریدی ہے، زندگی نہیں بیچی
مجھ پر فتویٰ آگ نے لگایا یا پانی نے، دونوں میں میری مرضی نہیں پوچھی گئی
اور راضی نامے میں میرا ہونا ثابت نہیں ہوا
صرف میری ناراضگی کی بنیاد پر مجھے ناراض لوگوں کی ڈیتھ سکوارڈ کے سامنے پیش کیا گیا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے