کوئٹہ میں تین نظمیں

بروری کی شام۔۔

(نوشین کمبرانڑیں جانتی ہے)

بے بسی عمارتوں پہ پھیلتی رہی
اور زیرِ آسمان
بادلوں کے پارچوں میں
زرد درو کبوتروں نے
اپنے پرچھپا لیے

بے بسی عمارتوں پہ پھیلتی ہوئی
مرے مکاں تک آگئی
میں اپنے خواب زار ساتھ لے کے چل پڑا

اور بادلوں کے ساتھ
زرد رو کبوتروں کے
نرم نرم شہپروں میں
اپنا دل چھپا لیا

26/8
ہجرت کے شب نیلا فلک۔۔
(نیلے دوپٹے کی طرح)
ٹھٹری خزاں کی بارشوں
کے پول پر باندھی ہوئی
اک تار پر بھولی گئی

بے نور آنکھوں کی طرح
اک اور کھڑکی کی طرف
کھلتے ہوئے کھڑکی کے پٹ
بے خواب ہی چھوڑے گئے

گم گشتہ چہروں کے کھلے
کیفے کے منظر میں پڑی
میز اور خالی کرسیاں
ان پر تھکے ہارے گلاس
پس منظروں میں کھو گئے

موجودگی کے پارک میں
کھوئے ہوئے پتھر کے بنچ
سرما کی ٹھنڈی چاندنی
خود سے لپیٹے سوگئی

پھر فریم کی دیوار پر
برسات کا خالی فریم
اک کیل پر لٹکا رہا

جو تھی نہیں۔۔۔

فروری کے مہینے میں۔۔۔

زرد مہندی کے پودے سے جب
کوک جھڑنے لگی
شاخ ہلنے لگی
زرد ہوا نے فلک کی ہتھیلی رچی
ایک جنگی سپاہی کی
بیوہ کے ہاتھوں میں مہندی لگی
اور ٹہنی پہ بیٹھے پرندے سبھی
رُت کے ہاتھوں رچی
اس حنا کا تصور لیے
ایک پودے کی پھر سے ہری
ٹہینوں کے تصرف میں اڑنے لگے
پھر سے اس پر لگیں
آتشیں برگ
کے گیت گاتے ہوئے
گنگناتے ہوئے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے