ہوں حرفوں میں لیکن تفصیل میں ہوں
میں تو رکھا کسی زنبیل میں ہوں

تو ہے بادِ صر صر کالی شبوں کی
میں ہوں نورِ سحری قندیل میں ہوں

میں اوندھی دنیا میں سیدھے جہاں کی
جانے کب سے جہدِ تشکیل میں ہوں

میں بھی زندہ رہنے کی کوششوں میں
فرمانِ حاجت کی تعمیل میں ہوں

مجھ کو گمنامی کا ڈر یوں بھی نہیں
میں اوروں کے لب سے ترسیل میں ہوں

میں تو بندہ ہوں کوئی اور جہاں کا
اس دنیا کی بابت تذلیل میں ہوں

میرے من کا سورج کیسے بجھے گا
میں جو آدرشوں کی تحویل میں ہوں

میری فطرت ہی آڑے آجاتی ہے
میں تو عیسی زعمِ تکمیل میں ہوں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے